مدت رضاعت کاحکم

تفہیم القرآن جلد اول میں سورۃ البقرۃ کے مطالعہ کے دوران جب میں آیت وَالوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ (آیت ۲۳۳) پرپہنچا تو دوسوالا ت ذہن میں آئے

(۱)      اگریہ حکم اسی صورت کے لیے خاص ہے جب زوجین ایک دوسرے سے علیحدہ ہوچکے ہوں (جیسا کہ مولانا موصوف نے حاشیہ میں لکھا ہے) توعام حالات میں مدت رضاعت کیاہے؟

(۲)     کیا صورت مذکورہ میں مطلقہ اس مدت (حولین کاملین) میں نکاح ثانی کرسکے گی یانہیں ؟

جواب

 مولانا مودودی کا مختصر حاشیہ پھر غورسے پڑھیے۔ مولانا نے آیت کے حکم کو جس صورت کے ساتھ مخصوص کیا ہے اس کا تعلق مدت رضاعت سے نہیں ہے بلکہ دودھ پلانے والی ماں سے ہے۔ آیت کامطلب یہ ہے کہ جو عورت اپنے شوہر سے علیحدہ ہوچکی ہو(خواہ یہ علیحدگی طلاق، خلع، فسخ نکاح یا تفریق کسی ذریعہ سے بھی ہوئی ہو) بایں حال کہ اس کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہو اوراس کا باپ یہ چاہتا ہوکہ پوری مدت رضاعت میں اس کو دودھ پلایا جائےتو اس ماں کی ذمہ داری یہ ہےکہ وہ انکار نہ کرے اور اس بچہ کو باپ کی خواہش کے مطابق دودھ پلائے۔ البتہ اس باپ کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو مدت رضاعت ختم ہونے تک کھانا کپڑادے۔ فرض کیجیے ایک عورت کو طلاق دی گئی اور عدت کی مدت ختم ہوگئی لیکن اس کی گود میں جو بچہ ہے وہ صرف ایک سال کا ہے۔ باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کی ماں اس کو ایک سال اور دودھ پلائے تاکہ دو سال جو رضاعت کی مدت ہے گزرجائے تو اس عورت کو بلاعذر انکار نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ باپ کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کو ایک سال تک کھانا کپڑا دے۔ آیت میں رضاعت کی جو مدت ’دوسال ‘ بتائی گئی ہے وہ ہر صورت میں ہے، کسی خاص صورت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ آپ سورۃ البقرۃ کی پوری آیت ۲۳۳کامطالعہ کریں۔

(۲) آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ عورت پر یہ پابندی عائد نہیں کی گئی ہے کہ مدت رضاعت ختم ہونے سے پہلے نکاح ثانی نہ کرے۔وہ اپنا دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں اگر باپ چاہے تو اجرت پرکسی دوسری عورت سے بچہ پلواسکتا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی اسی آیت میں آگے کہاگیا ہے۔ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَکُمْ الخ......’’اور تم اپنی اولاد کو دوسری عورتوں سے دودھ پلوانا چاہو تو کچھ حرج نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا طے کیاتھا دے دو۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ اگراس بچہ کی ماں کسی عذر کی وجہ سے دودھ پلانے سے قاصر ہوتو باپ کسی دوسری عورت سے اجرت پردودھ پلواسکتا ہے۔عذرمیں نکاح بھی داخل ہے۔ یعنی اگر بچہ کی ماں مدت رضاعت کے اندر اپنا نکاح ثانی کرنا چاہتی ہو تو باپ کوئی دوسری عورت دودھ پلانے کے لیے مقرر کرسکتا ہے۔ سورۃ الطلاق کی آیت۶ سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے۔ بہرحال اس عورت پرشرعاً یہ پابندی عائد نہیں ہے کہ وہ مدت رضاعت کے اندر نکاح ثانی نہ کرے۔

(جنوری۔ فروری ۱۹۷۶ء ج۷۶ ش ۳۔۴)