جواب
معراج کے بارے میں یہ بات نہ میں نے کبھی کہی، نہ لکھی اور نہ میرے دماغ میں کبھی یہ خیال آیا کہ یہ واقعہ دن کے وقت پیش آیا تھا۔ تفہیم القرآن جلد دوم، تفسیر سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کا ترجمہ اور اس پر میرا مفصل حاشیہ دیکھ لیں ۔ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ میرے نزدیک معراج رات کو ہوئی تھی یا دن کو۔
سورئہ النجم کی آیات ۴ تا۱۲ میں جبریل ؈ سے حضورﷺ کی پہلی ملاقات کا ذکر ہے، جس کا معراج سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسی کے متعلق میں نے لکھا ہے کہ یہ مشاہدہ دن کی روشنی اور پوری بے داری کی حالت میں ہوا تھا۔ تفہیم القرآن جلد پنجم (صفحات ۱۸۸-۱۸۹ اور۱۹۳ تا۲۰۰) میں اس کی پوری تشریح موجود ہے۔
رہی یہ بحث جو جنوری ۱۹۷۷ء کے ترجمان القرآن میں صفحہ۱۰ پر کی گئی ہے تو اس کا عنوان: ’’جبرئیلؑ سے حضورﷺ کی پہلی ملاقات زمین پر‘‘ خود ہی صاف ظاہر کر رہی ہے کہ یہ آسمان والی ملاقات کا ذکر نہیں ہے۔ اس پوری بحث کو آپ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ معراج کے سلسلے میں یہ بحث صرف اس لیے کی گئی ہے کہ ایسے غیر معمولی مشاہدات پر حضورﷺ کے مبتلاے شک نہ ہونے کی وجہ کیا تھی۔ اس سے آگے سدرۃ المنتہیٰ پر جبریل؈ سے حضورﷺ کی دوسری ملاقات کا ذکر صفحہ ۱۲ پر ہے۔ اسے بھی پڑھ کر دیکھ لیں کہ سلسلہ بیان کیا ظاہر کر رہا ہے۔
درحقیقت ان حضرات کی عادت یہ ہے کہ کسی شخص کی کسی عبارت کا ایک آدھ فقرہ لے کر اس پر الزامات کی ایک پوری عمارت کھڑی کر دیتے ہیں اور اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے کہ اس شخص نے اپنی دوسری تحریروں میں اس مسئلے کے متعلق کیا لکھا ہے۔ یہ تحقیق اگر وہ کریں تو ان کو خود معلوم ہو جائے کہ ان کے الزامات خالص افترا اور بہتان ہیں ۔ بالفرض اگر وہ یہ عذر کریں کہ ہمارے پاس اتنی تحقیق کی فرصت نہیں ہے تو ان سے پوچھیے کہ دوسرے لوگوں پر الزامات چسپاں کرنا اور انھیں پھیلانا آپ پر کس نے واجب کیا ہے کہ یہ کام لامحالہ آپ کو کرنا ہی چاہیے۔
(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)