مہواکی تجارت جائز ہے

 مہوا کی تجارت جائز ہے یا ناجائز؟ ہمارے یہاں مہوا کے درخت ہوتے ہیں جن کے پھول گرتے ہیں۔ دیہاتی لوگ اس کو چن کرلاتے اورخشک کرکے بیچتے ہیں۔ پھر یہ خشک مہوے سال بھر کرانہ کی دکانوں میں بکتے رہتے ہیں۔ عام طورپر خریدنے والے اس سے ہاتھ بھٹی کے ذریعے چوری چھپے شراب کشید کرتے ہیں۔ چوں کہ یہ قابل دست اندازیِ پولیس جرم ہے اس لیے ایک مسلمان کے لیے مہوا کی تجارت جائز ہے یا ناجائز؟ بعض لوگوں کو کہنا ہے کہ مہوا بیچنا درست نہیں ہے چوں کہ سب جانتے ہیں کہ اس سے شراب کشیدکی جاتی ہے پھر ایسے مشہور مقصد کے لیے استعمال ہونے والی چیزکی خریدوفروخت کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ مگرایک صاحب کہتے ہیں کہ مہوا بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ چوں کہ انگور کی تجارت جائز ہے حالاں کہ انگور سے بھی شراب کشیدکی جاتی ہے۔جب انگور کی تجارت جائز ہے تو مہوا کی تجارت کے ناجائز ہونے کی وجہ کیا ہے؟

جواب

مہوا(یاموہا) کی تجارت شرعا جائز ہے۔ شریعت نے جائز اور حلال چیزوں کی خریدوفروخت کو محض اس وجہ سے کہ لوگ اس سے کوئی ناجائز چیز بنالیں گے، ناجائز نہیں قرار دیا ہے۔ جو لوگ مہوے یا موہے کی تجارت کو انگور پر قیاس کرتے ہیں ان کا قیاس صحیح ہے۔ انگورسے شراب کشید کرنے کا کام عہد قدیم سے اب تک ہوتا چلاآرہاہے۔ ہمارے صوبہ بہا ر میں آدی باسی قبیلہ عام طورسے چاول سے شراب کشید کرکے پیتا ہے۔ اس بناپر کسی آدی باسی سے چاول فروخت کرنا ناجائز نہیں ہوسکتا۔فقہ کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ انگورسے نچوڑا ہوا رس کسی ایسے شخص سے فروخت کیا جائے جو اس سے شراب بناتا ہے تو یہ بیع بھی جائز ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں 
ولا باس ببیع العصیرمن یتخذہ خمرا (فتاویٰ عالم گیری،ج۳،ص۱۱۶)
’’انگورکارس اس شخص سے فروخت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جو اس کو شراب بنالیتا ہے۔‘‘
(اگست؍ستمبر۱۹۷۴ء،ج۵۲،ش۲۔۳)