نظریہ ارتقا کی علمی حیثیت

ارتقا کے متعلق لوگوں کے اندر مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔ بعض مفکرین انسانی زندگی کا ظہور محض ایک اتفاقی حادثہ خیال کرتے ہیں ۔بعض کے نزدیک(جن میں ڈارون سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے) انسان نے زندگی کی اعلیٰ اور ارفع حالتوں تک پہنچنے کے لیے پست حالتوں سے ایک تدریج کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ ترقی تنازع للبقا اور بقاے اصلح کی رہین منت ہے۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انسان ہمیشہ جغرافیائی ماحول کے سانچوں میں ڈھلتارہا ہے جیسا کہ لامارک۔ بعض لوگ برگسان کے تخلیقی ارتقا کے قائل نظر آتے ہیں ۔ آپ کی تحریروں کے مطالعے سے یہ بات منکشف نہیں ہوسکی کہ آپ ارتقا کے کس پہلو کے مخالف ہیں ۔ براہِ کرم اس پہلو کی نشان دہی کریں ۔
جواب

مسئلہ ارتقا پر میں نے جو اعتراضات بھی کیے ہیں ، وہ دراصل ڈارون ازم کے خلاف ہیں ۔نفس ارتقا تو ایک امر واقعی ہے جس سے اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن ڈارونزم ایک مفروضے سے کچھ زیادہ نہیں ہے،اور مفروضہ بھی ایسا جو تمام مشہود حقائق کی معقول توجیہ نہیں کرتا، بلکہ بعض حقائق کی قیاسی توجیہ کرتے ہوئے بہت سے حقائق سے نظر چرانے کی کوشش کرتا ہے۔پھر ایک شدید علمی استبداد جو پادریوں کے مذہبی استبداد سے اپنی متعصبانہ نوعیت میں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے،اس کی پشت پناہی کرتا ہے اور اس کے خلاف سائنٹی فِک تنقید کو برداشت نہیں کرتا۔تاہم اس نظریے پر اب تک جو تنقیدیں گہرے علمی استدلال کے ساتھ ہوئی ہیں ، انھیں نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس پر بکثرت اعتراضات ایسے ہیں جن کو رفع کرنے میں ڈارون ازم کے حامی اب تک کام یاب نہیں ہوسکے ہیں ۔ آپ اس تنقیدی لٹریچر کا مطالعہ کرکے خود دیکھ لیں کہ اعتراضات کتنے وزنی ہیں اور جن چیزوں کو ڈارون ازم کا ثبوت کہا جاتا ہے،وہ کس قدر کمزور ہیں ۔مثال کے طور پر صرف ایک ہی کتاب({ FR 1643 }) (The Revolt Against Reason) کے مطالعے کا میں آپ کو مشورہ دوں گا۔ میں جس چیز کو صحیح سمجھتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ نباتات وحیوانات کی ہر نوع اور اسی طرح نوع انسانی کو بھی اﷲ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا ہے کہ ہر نوع کے پہلے فرد کو وہ براہِ راست اپنے تخلیقی عمل سے وجود میں لایاا ور اس کے بعد خود اسی کے اندر اس نے تناسل کی طاقت رکھ دی،جس سے بے شمار افراد توالد وتناسل کے ذریعے سے وجود میں آتے چلے گئے۔ یہ نظریہ تمام مشہود حقائق(observed facts) کی زیادہ بہتر توجیہ کرتا ہے اور کوئی اعتراض اس پر ایسا نہیں لایا جاسکتا جس کا جواب اس نظریے میں موجود نہ ہو، نہ کوئی مشکل اس نظریے کی تفصیلات میں کسی جگہ ایسی سامنے آتی ہے جو حل نہ ہوسکتی ہو۔سوال یہ ہے کہ ہر ممکن التصور مفروضے کو تو ناقابل غور سمجھا جاتا ہے مگر اس نظریے سے فرار کیوں کیا جاتا ہے؟ (ترجمان القرآن، جنومبر ۱۹۵۹ء)