۱) جناب اقبال حسین پیلی بھیت سے لکھتے ہیں
۱) جناب اقبال حسین پیلی بھیت سے لکھتے ہیں
مئی ۱۹۶۹ء کا زندگی دیکھا۔ بہت خوب ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمینارمیں پڑھے گئے مقالات پر جو آپ کا تبصرہ ہے، غورسے پڑھا۔ میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ نظریۂ تناسخ اور ڈارون کے نظریۂ ارتقا میں ایک طرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ تعجب ہے کہ اسے کچھ لوگوں نے غیرضروری قراردیا۔
ہندودھرم کے مطابق انسان مرنے کے بعد اپنے اعمال کے مطابق دوبارہ جنم لیتا ہے۔ اگر اس نے دنیا میں دھرم کی پیروی کی ہے تو اسے اگلے جنم میں کسی اچھے خاندان میں انسان ہی کی شکل میں پیدا کیا جائے گا اور اگراس نے دھرم کا النگھن (بغاوت) کیا ہے اور برے افعال کیے ہیں تو اسے دوسرے جنم میں کسی جانور کی جون میں پیدا کیا جائے گا۔ اور بات اب بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ نظریہ کہتا ہے کہ ایک بداعمال شخص جب وہ انسان سے حیوان میں تبدیل کیاجائے گا تو وہ اپنی حیوانی زندگی ختم کرنے کے بعد پھر انسان کی شکل میں پیدا ہوگا کیوں کہ اس نے اپنےا یک جنم کی سزا دوسرے جنم میں بھگت لی۔ تناسخ کا یہ چکر محض دعویٰ ہے جسے ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے واقعات بنائے جاتے ہیں۔ جس طرح تخلیق انسان کے ارتقا کو ثابت کرنے کے لیے پرانی ہڈیوں کو جوڑ جوڑ کر ایک نظریہ تصنیف کیاگیا ہے۔ ان دونوں نظریوں میں فرق یہ ہے کہ تناسخ میں جزاوسزا کا تصور شامل کردیاگیا ہے اور ارتقا کا نظریہ اس سے بے نیاز ہے۔
دوسری بات جس پراس سے زیادہ تعجب ہواوہ یہ کہ ’’نظریۂ ارتقا کا کسی مذہبی عقیدے سے تصادم نہیں ہے۔‘‘ بہت سے مذاہب ایسے ہیں جن میں انسان کی تخلیق کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے صرف انسان اور خالق کوسامنے رکھ کر تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ اگر سامنے ایسے ہی مذاہب ہوں تو بے شک نظریۂ ارتقا مذاہب سے متصادم نہیں۔ لیکن اگر اسلام بھی سامنے ہوتو یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تخلیق انسانی کے بارے میں واضح اوراہم بیان موجود ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کون سے چوٹی کے علماء ہیں جو نظریۂ ارتقا کو کسی مذہبی عقیدے سے متصادم نہیں سمجھتے۔ یہ کہنا کہ ’’اس کا تعلق طریقۂ تخلیق سے ہے نہ کہ خالق کے انکار سے ‘‘ نظریۂ ارتقا کے مذہب سے متصادم ہونے کی نفی نہیں کرتا اس لیے کہ قرآن کے بیان میں طریقۂ تخلیق کی طرف بھی واضح اشارات موجود ہیں۔ سوچیے کہ ایک طرف خالق یہ فرماتاہے کہ میں نے انسان کو مٹی سے پیداکیا ہے اور ڈارون یہ کہتا ہے کہ نہیں، انسان مختلف جانوروں سے ترقی پاتا ہواانسانی شکل میں نمودار ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نظریۂ ارتقا کے موجدین یہ بھی کہتے ہیں کہ جانوروں سے انسان تک کے ارتقائی عمل میں کسی خالق یا اس کے ارادے کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھیے یہاں پر خالق کا انکار بھی صاف جھلک رہاہے۔ تجربہ یہ ہے کہ ایک غیرحقیقی بات کو ثابت کرنے کے لیے انسان بہت سی غیرحقیقی باتیں کہتا ہے۔ چناں چہ آگے بڑھ کر نظریۂ ارتقا خدا کے انکار تک پہنچ گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح ارتقا اور تخلیق میں فرق ہے اسی طرح مذہب اور نظریۂ ارتقا میں بعد المشرقین ہے۔
اخیر میں ان لوگوں سے جو اس کو اسلامی عقیدۂ تخلیق سے متصادم نہیں سمجھتے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا ایک شخص نظریۂ ارتقا پر یقین رکھتے ہوئے تسلیم کرسکتا ہے کہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے؟ تین باتیں اس مسئلے میں سامنے آتی ہیں۔ خالق،طریقۂ تخلیق، وجہ تخلیق یعنی خالق کون ہے؟ اس نے کس طرح پیدا کیا اور کیوں پیدا کیا؟ انسان جب ڈارون کی تھیوری کوسامنے رکھ کر اپنے بارے میں سوچتا ہے تو وجہ تخلیق کا یہ سوال ہی غائب ہوجاتاہے اور وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ زمین پروہ اللہ کا خلیفہ ہے اور پیدا کرنے والے نے اسے کسی خاص مقصد سے پیدا کیا ہے۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ جانور سمجھتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا بھی صرف وہی مادی مقصد سامنے رکھتا ہے جو جانوروں کی زندگی کا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آگے بڑھ کر عریاں رہنے اور جنسی آزادی کو بھی اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگتا ہے۔ اس مسئلہ پرغور کرتے وقت صرف طریقۂ تخلیق کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا غلط ہے۔ ڈارون کے پورے نظریہ کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ مذہب سے متصادم ہے یا نہیں ؟ (اگست ۱۹۶۹ء،ج۴۳،ش۲)
سوال(۲)محترم نجات اللہ صدیقی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے لکھتے ہیں
زندگی جنوری ۱۹۷۰ء میں ڈاکٹر احسان اللہ خان صاحب کے مقالہ پرمدیرکا نوٹ پڑھ کر یہ عرض کرنا ضروری محسوس ہوا کہ اس موضوع پرزندگی میں جو مواد شائع ہواس کی نوعیت یہ نہیں ہونا چاہیے گویا مدیر اور لکھنے والوں کے درمیان مذاکرہ ہورہاہے۔ امید ہے ابھی اور لوگ اظہار خیال کریں گے۔ مدیر کو بھی اپنی رائیں ایک ساتھ جامع طورپر ظاہر کرنی چاہییں۔ عجلت کی کوئی ضرورت نہیں۔ لہجہ بھی خالص علمی اور غیرجذباتی رکھنا مناسب ہے۔
پہلے موقف (مذکورصفحہ ۴۲زندگی، جنوری ۱۹۷۰ء) پرتبصرہ پڑھ کر تعجب ہوا۔ خدا سے بے نیاز سائنس اور سائنس دانوں نے کائنات کے جتنے مظاہر کی تشریح کی ہے، خدا کے بغیر کی ہے۔غالب رجحان کے اتباع میں ان مغربی سائنس دانوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا جو خدا کے قائل تھے۔ کسی کتاب میں ’’پانی کس طرح برستاہے‘‘ کے عنوان کے تحت یہ بیان کیاگیا ہو کہ سورج کی گرمی سے سمندر سے بھاپ اٹھتی ہے پھر درجۂ حرارت اور ہوا کے دبائو میں فرق کے سبب مانسونی ہوائیں چلتی ہیں، وغیرہ وغیرہ تو اس پورے بیان میں خدا کا ذکر نہیں ہوگا۔ فرض کیجیے مجھے ایک شخص ملتا ہے جواس غلط فہمی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ پانی اس طرح برساتا ہے کہ آسمان میں کسی خزانے سے بادلوں کو پانی سے سیراب کرکے ان کو زمین پرپانی گرانے کو کہتا ہے۔ اور میں اس سے یہ کہوں کہ ’’پانی اس طرح برستا ہے جس طرح اس کتاب میں بیان کیاگیا‘‘ تو کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ میرے نزدیک بھی پانی برسنے کے پورے عمل میں خدا کی حکمت وار ادہ کا کوئی دخل نہیں اور یہ عمل خود بخود انجام پاتاہے؟ یا میں اپنے مخاطب سے اس حسن ظن کی امید رکھوں کہ میری پوری بات یہ ہےکہ خدا نے پانی برسانے کا وہ طریقہ اختیار کررکھا ہے جسے اس کتاب میں بیان کیاگیا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ڈارون نے ارتقا کے عمل کی تشریح اس ارادے سے کی ہوکہ انسانوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ انسانی تخلیق خدا کی حکمت وقدرت کی محتاج نہیں بلکہ ایک خودکار عمل کا نتیجہ ہے۔ مگر اس سے ان لوگوں کے موقف پرکیا اثر پڑتاہے جو یہ رائے ظاہر کرتے ہوں کہ خدا نے انسان کو اس تدریجی عمل کے ساتھ بنایا ہے جس تدریجی عمل کو ڈارون نے بیان کیاہے؟ جو لوگ یہ رائے رکھتے ہوں یا کہتے ہوں کہ ’’ہوسکتا ہے کہ انسان کو خدا نے تدریجی طورپر بنایا ہو‘‘ ان کی نسبت سے مسئلہ ڈارون یا اس کے نظریے یا اس نظریے کے پیش کرنے کے محرکات یا اس نظریے کے اثرات کا نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ قرآن کریم کے بیانات ان کی اس رائے کی تائید کرتے ہیں یا ان میں اس کی گنجائش نکلتی ہے کہ آدم کو اللہ نے مٹی سے بغیر خلق کے درمیانی مراحل سے گزارے ہوئے بنانے کے بجائے متعدد مراحل سے گزارتے ہوئے بنایا ہے۔ پہلے موقف کابیان اگر غورسے پڑھاجائے تو اس کا تعلق نظریۂ ارتقا کے صرف اس پہلو سے ہے جس میں تدریجی یا درمیان مراحل کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس نظریے کے محرکات ومقاصد اوراس کے پیش کرنے والوں کے فلسفیانہ مزعومات سے اس موقف کو کوئی ہمدردی نہیں۔
مدیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس نظریے کے اساتذہ نے اور خود ڈارون نے اللہ کی تخلیق اوراس کے ارادے کی ضرورت کی نفی کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ پہلا جرثومۂ حیات بغیر کسی خالق کی تخلیق کے آپ سے آپ وجود میں آیا تھا۔(صفحہ ۴۷زندگی، جنوری ۱۹۷۰ء)
چوں کہ اس موضوع پرمیرا مطالعہ بہت کم ہے اس لیے میں کہہ نہیں سکتا کہ یہ بیان کس حدتک درست ہے، مگر مجھے یہ شبہ ضرور ہے کہ یہ سنی سنائی باتوں پرمبنی ہے نہ کہ مطالعہ پر۔ اس شبہ کی بناڈارون کی کتاب ’اصل الانواع‘ کا آخری جملہ ہے جو ذیل میں اس لیے نقل کررہاہوں کہ اگر یہ سامنے آچکا ہو تا تو شاید مذکورہ بالا رائے ظاہر کرنےمیں زیادہ احتیاط سے کام لیاگیا ہوتا۔ڈارون کی کتاب کے آخری جملہ کا ترجمہ یہ ہے۔
’’زندگی کے اس تصور میں بڑی رفعت ہے کہ اسے اپنی متعدد قوتوں کے ساتھ ابتداءً خالق نے چند ہئیتوں یا ایک ہیئت میں ڈالا۔پھر یہ سیارہ تو کشش کے مقررہ قانون کے مطابق گردش میں مصروف رہا، مگر اتنی سادہ سی ابتدا سے لاتعداد حسین اور حیرت انگیز ہئیتوں نے جنم لیا اور برابر جنم لیتی جارہی ہے۔‘‘
(ڈاروناوریجن آف اسپیسنر، آخری جملہ)
اگرچہ قلم برداشتہ ترجمہ بڑا ناقص ہے، مگر میر ا منشا صرف یہ اطلاع دینا ہے کہ اس میں زندگی کے آغاز کو خالق کے خلق کی طرف منسوب کیاگیا ہے۔
یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ اگر کچھ سائنس دانوں نے اس طرح کے دعوے کیے ہیں جن کا ذکر مدیر نے مذکورہ بالا عبارت میں کیا ہے تو انھوں نے سائنس کے حدود سے صریح تجاوز کیا ہے۔جس طرح بیج سے درخت بن جانے یا زلزلہ آنے کے عمل کی تشریح وتفصیل اور اسباب وعلل کے متعلقہ سلسلوں کی دریافت اوروضاحت سےیہ نہیں ثابت ہوتا کہ ان مظاہر کے پیچھے کوئی کرنے والا ہاتھ اور کسی حلیم وحکیم ہستی کا ارادہ نہیں ہے، اسی طرح سائنس داں اگر ارتقا کی ہرکڑی دریافت کرلیں، بلکہ فرض کیجیے کہ قید زمان سے باہر لے جاکر وہ ہمیں وہ پورا تاریخی عمل آنکھوں سے دکھلادیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ارتقا یوں ہوا ہے اور زندگی کی سادہ ہئیتوں سے انسان تک پہنچنے کے درمیانی مراحل یہ تھے، تو بھی یہ نہیں ثابت ہوگا کہ اس عمل کے پیچھے کوئی عامل اور مدبر نہیں ہے۔
مغربی سائنس دانوں کے طرزِ تحقیق او رطریقۂ بیان کے علی الرغم اگر ہم عمل ارتقا کی تشریح اللہ کے ذکر سے شروع کریں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جغرافیہ کی کتابوں میں مذکور زلزلہ آنے یا پانی برسنے کی کیفیت کےبیان کو اللہ کے ذکر سے شروع کریں۔ مجھے یقین ہے کہ موخر الذکر بیانات کو فاضل مدیر زندگی لطیفہ یاستم ظریفی نہیں قراردیں گے۔ پھر میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اول الذکر کو ستم ظریفی کیوں کر قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اگر خلق آدم میں ارتقا ہوا تھا تو میں اسے صانع اور قادر مطلق کی محیرا لعقول صنعت وقدرت کا ایک اور نمونہ قرار دے کر اس سے اس کی صنعت وقدرت پراستدلال کروں گا۔یقیناً خدا بیج سے یا بغیر بیج کےبھی پورا برگد کادرخت یک لخت کھڑا کرسکتا ہے اور کرسکتا تھا۔ مگر آنکھیں دیکھتی ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتا اور اصحاب بصیرت کو بیج سے برگد کا پورا درخت بننے کے طویل تدریجی عمل میں صنعت ِخداوندی کے نمونے نظر آتے ہیں۔ اگر آدم کا خلق بھی اس تدریجی ارتقا کے ذریعے ہوا ہے جس کے بعض مراحل کا بیان ’نظریہ ارتقا‘ میں مذکورہے تو اس کا معاملہ بھی بعینہ یہی ہے۔
گہرے مطالعے اور سنجیدہ غوروفکرکے بغیر متوارث تعصبات کی بناپر سائنس کے بیانات پر حکم لگانا صرف علماء کے ذمہ دارانہ مقام کے شایان شان نہیں بلکہ اسلام کے لیے مضر نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ مطالعہ اور غوروفکر میں ہمیشہ مخالف رائیں رکھنے والوں کی باتوں پرٹھنڈی فضا میں غوروفکر سےمدد ملتی ہے۔ افسوس کہ مدیر زندگی کا نوٹ بالخصوص اس کے وہ فقرے جو کچھ اسلام پسندوں کے موقف (یعنی پہلے موقف) کے سلسلے میں لکھے گئے ہیں اس فضا کو بگاڑنے والے ہیں۔
آخر میں صرف عبرت کے لیے ایک مثال پیش کرتاہوں۔ امام زمخشری کی معرکۂ آرا تفسیر کشاف کا علمی مقام کتنا بلند ہے۔ اب ذرا سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹ کی تفسیر دیکھیے۔ آپ کو یہ جملہ ملے گا
فِیْہِ اَنَّ السَّحَابَ مِنَ السَّمَآءِ یَنْحَدِرُ مِنْھَا یَاْخُذُ مَاءَہٗ لَا کَزَعْمٍ مِنْ یَّزْعَمُ بِاَنَّہٗ یَاْخُذُ مِنَ الْبَحْرِ
’’اس سے معلوم ہواکہ بادل آسمان سے اترتا ہے اور وہاں سے پانی لے کر آتاہے۔ نہ کہ ان لوگوں کے زعم کے مطابق جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سمندرسے (پانی) لے کرآتاہے۔‘‘
کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم ان غلطیوں سے بچ سکیں جو اگلوں سے ہوچکی ہیں۔
جواب
محترم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنے مکتوب میں جتنی باتیں لکھی ہیں ان سب پر اظہا رِ خیال ضروری نہیں ہے۔ البتہ اس کے بعض اجزا کے بارے میں چند باتیں ان کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
۱-سب سے پہلے میں انھیں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ زندگی میں ڈاروینی نظریۂ ارتقا کے خلاف جو مضامین یا خطوط ابھی حال میں شائع ہوئے ہیں وہ اس روداد کے بعد چھپے ہیں جو میں نے علی گڑھ کل ہند سمینار کے بارے میں زندگی مئی ۱۹۶۹ء کے شمارے میں شائع کی تھی اور پھر میں نے اپنا وہ مقالہ بھی شائع کردیاتھا جوسمینار میں پڑھاگیاتھا۔ اس میں، میں نے ڈاروینی نظریۂ ارتقا پرسخت تنقید کی ہے۔ اس لیے میری حیثیت محاکمہ کرنے والے کی نہیں ہے بلکہ اس بحث کے ایک فریق کی ہے۔محاکمہ قارئین زندگی خود کرلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جناب احسان اللہ خاں کے مضمون پرساتھ ہی ساتھ اپنا نوٹ شائع کرنا ضروری سمجھا اور اسی وجہ سے میں آپ کے خط پربھی اظہار خیال ضروری سمجھتا ہوں۔
۲- آپ نے اسلام پسند اساتذہ کی طرف سے پہلے موقف کی توضیح کرتےہوئے لکھا ہے
’’ہوسکتا ہے کہ ڈارون نے ارتقا کے عمل کی تشریح اس ارادے سے کی ہوکہ انسانوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ انسان کی تخلیق خدا کی حکمت وقدرت کی محتاج نہیں بلکہ ایک خود کار عمل کا نتیجہ ہے۔ مگر اس سے ان لوگوں کے موقف پرکیا اثر پڑتا ہے جو یہ رائے ظاہر کرتے ہوں کہ خدا نے انسان کو اس تدریجی عمل کے ساتھ بنایا ہےجس تدریجی عمل کو ڈارون نے بیان کیاہے؟‘‘
اس پیراگراف کو ختم کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے
’’پہلے موقف کا بیان اگر غور سے پڑھا جائے تو اس کا تعلق نظریۂ ارتقا کے صرف اس پہلو سے ہے جس میں تدریجی یا درمیان مراحل کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس نظریے کے محرکات ومقاصد کے پیش کرنے والوں کے فلسفیانہ مزعومات سے اس موقف کو کوئی ہمدردی نہیں۔ ‘‘
آپ کی یہ توضیح پڑھ کر صدمہ پہنچا۔ پہلے تو میں حسن ظن کی وجہ سے یہ سمجھتا تھا کہ پہلا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے کالب میں روح پھونک کربیک دفعہ انھیں انسان نہیں بنایا تھا بلکہ پہلے ان کا جرثومۂ حیات پیداکیا اورپھراسے بتدریج ترقی دے کر انسانی شکل تک پہنچایا ہے، جس طرح آج رحم مادر میں انسانی جرثومے بتدریج ترقی پاکر انسانی شکل اختیار کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہ عمل بطن مادر میں تکمیل کو پہنچتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کے لیے یہ عمل خارج میں تکمیل کو پہنچایا گیا۔ اسی لیے میں نے اپنے نوٹ میں لکھا تھا کہ اگر پہلے موقف والے حضرات صرف اسی کو نظریۂ ارتقا کہتے ہیں تو میں اس کو مذہب کے خلاف نہیں کہتا۔ لیکن آپ کی توضیح سے معلوم ہواکہ پہلا موقف یہ ہے کہ قرآن حکیم کے بیانات میں ان تمام درمیانی مراحل کی بھی گنجائش موجود ہے،جس کی تفصیل ڈارون اوراس جیسے دوسرے سائنس دانوں نے بیان کی ہے یعنی انسان کسی جانور سے ترقی پاکر انسانیت کی منزل تک پہنچاہے۔
اب میں پورے یقین کے ساتھ عرض کرتاہوں کہ یہ موقف قطعاً غلط ہے اور قرآن حکیم کے بیانات میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو کسی بندریا لنگور سے ترقی دے کر انسان بنایا تھا وہ اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہیں جس کی کوئی سند اس نے نازل نہیں کی اور جو تخلیق آدم کے سلسلے میں تیرہ صدیوں کے تمام علمائےامت کی تفسیروں کے خلاف ہے۔ اور آج تک کتابوں سے الماریاں بھردینے کے باوجود خود سائنس داں بھی یہ ثابت نہیں کرسکے ہیں کہ انسان کسی جانور سے ترقی پاکر انسان بناتھا۔ اس کے علاوہ فاضل مکتوب نگار کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ زندگی میں جو کچھ شائع ہواہے اس میں ڈارون کے پورے نظریۂ ارتقا پرتنقید کی گئی ہے اس کے کسی ایک پہلو یا جزپر نہیں۔ پھر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ جب علی گڑھ کے اسلام پسند اساتذہ کو پورے نظریے اور اس کے اثرات ونتائج سے ہمدردی نہیں ہے اور کسی مسلمان کو ہوبھی نہیں سکتی، تو آخرانھیں کیا تشویش پیدا ہوئی کہ انہوں نے باضابطہ اجتماع کرکے اس بارے میں موقف کی تعیین کی اور ان میں سے بعض نے اس غیرثابت شدہ تدریجی عمل کو جسے ڈارون نے بیان کیاہے، مشاہداتی حقیقت تک کہہ ڈالا اور یہ اعلان کرنا بھی ضروری سمجھا کہ ’’تخلیق مخصوص کے نظریے پرجو مشاہداتی حقیقت کے خلاف ہے کھل کر تنقید کرنی چاہیے۔‘‘ اور محترم ڈاکٹر احسان اللہ نے یہ بھی لکھ دیا کہ ’’اس کی مخالفت خواہ کسی مقصد سے کی جائے خود اس مقصد کی جڑکھودنے کے مترادف ہے۔‘‘ انھوں نے اس نظریہ پر عیسائی علماء کی تنقید اور پھر ان کی خاموشی کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھا۔ گویا مسلمان علماء کی تنقید بھی عیسائی علماء کی تنقید کی طرح بے معنی ہے۔ مجھے فاضل مکتوب نگار سے یہ شکایت کرنے کا حق ہے۔ انھیں ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں نہ کوئی جذباتیت نظر آئی اور نہ فضا کو بگاڑ دینےوالی کوئی بات نظر آئی، مگر زندگی کے ایڈیٹر نے لطیفہ اور ستم ظریفی کا لفظ لکھ دیا تواس میں انھیں دونوں چیزیں نظر آگئیں یہاں تک کہ خود انھوں نے ڈاروینی عمل ارتقا کے لیے قرآن سے ثبوت پیش کیے بغیر تیرہ صدیوں تک مسلمہ طریقۂ تخلیق آدم کے بیان کو’متوارث تعصبات‘ کے لفظ سے نوازا۔ گویا ڈارون نے انسان کے انسان بننے کا جو عمل بیان کیا ہے وہ ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جس کے خلاف کچھ کہنا متوارث تعصبات ہی کے ذیل میں آسکتا ہے۔ کیا فاضل مکتوب نگار نے یہ لکھ کر فضا کو درست کرنے کی کوشش کی ہے؟ میں ان سے اور محترم احسان اللہ خان صاحب سے بڑے ادب کے ساتھ یہ دریافت کرتاہوں کہ کیا واقعی انسان کو بندر اور لنگورکی اولاد مان لینے سے اسلام کے لیے مفیدنتائج اورانسان کو ابتدا ہی میں انسان مان لینے سے مضرنتائج مترتب ہوں گے؟ دونوں فاضلوں نے ڈارون کے بیان کردہ تدریجی ارتقاء آدم پرتنقید اوراس کے انکار کو اسلام کے لیے مضر قراردیا ہے۔ کیا فی الواقع ان کے نزدیک اس نظریے کو یہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے ؟ ہم ان کے بڑے شکرگزارہوں گے اگر وہ قرآن سے یہ ثابت کردیں کہ انسان بندر اور لنگورسے ترقی پاکر انسان بناتھا۔
۳-میں نے چارلس ڈارون کے بارے میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ’’اس نے دعویٰ کیا ہے کہ پہلا جرثومۂ حیات بغیر کسی خالق کی تخلیق کے آپ سے آپ وجود میں آیاتھا۔‘‘ شاید خط لکھتے وقت میری عبارت نظر سے اوجھل ہوگئی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ڈارون خدا کا منکرنہ تھا لیکن انسانی تخلیق کے بارے میں اس نے جو نظریہ مرتب کیا تھا اس میں کہیں بھی خدا کی تخلیق اوراس کے ارادے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ اس لیے ملحدین نے اس کی کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا یہاں تک کہ اس کو اپنے ملحدانہ نظریات کے لیے ایک زبردست ہتھکنڈا بنالیا اور پہلے جرثومۂ حیات کے بارے میں بھی صاف صاف کہاکہ وہ محض مادی عوامل کے تحت وجود میں آیاتھا۔ بے شک میرا مطالعہ بھی اس موضوع پرفاضل مکتوب نگارہی کی طرح بہت کم ہے لیکن میں نے سنی سنائی باتوں پر یہ نہیں لکھا ہے بلکہ ان لوگوں کے مضامین میں پڑھ کر یہ لکھا ہے جنہوں نے ڈارون کی زبان میں براہ راست اس موضوع کا مطالعہ کیا ہے۔اور حوالے میں سب سے پہلے آپ کی توجہ ڈاکٹر احسان صاحب کے اس مضمون ہی کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں جس پر میرے نوٹ سے متاثر ہوکر آپ نے یہ خط لکھا ہے۔ ان کے ایک ذیلی عنوان ’صحیح موقف ‘ کو دوبارہ پڑھیے۔ اس عنوان کے تحت جو کچھ انھوں نے لکھا ہے سب پراظہار خیال مقصود نہیں ہے، صرف ایک بات کی نشان دہی کرتاہوں۔ انھوں نے لکھا ہے
’’انیسویں صدی میں مندرجہ بالا حقیقت (ارتقا کی حقیقت -ایڈیٹر) تسلیم کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیاگیا کہ یہ تمام عالم خود بخود وجود میں آگیا اوراس کا کوئی خالق نہیں۔ ‘‘
(زندگی جنوری ۱۹۷۰ء صفحہ ۴۵)
میں نے تو صرف یہ لکھا تھا کہ نظریۂ ارتقا کے اساتذہ نے پہلے جرثومۂ حیات کے بارے میں کہا ہے کہ وہ آپ سے آپ وجود میں آیا تھا اور ڈاکٹر صاحب فرمارہے ہیں کہ ارتقا کی حقیقت تسلیم کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیاگیا کہ تمام عالم بغیر کسی خالق کے خود بخود وجود میں آگیا ہے۔میں یہیں یہ بات بھی واضح کردوں کہ مسئلہ زیر بحث یہ نہیں ہے کہ ارتقاکو تسلیم کرلینے کے بعد سائنس دانوں نے سائنس کی حدود کے اندررہ کر خدا کا انکارکیاتھا یا باہر جاکر،میں نے جو نوٹ لکھا ہے اس کو اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ ارتقاء آدم کو تسلیم کرلینے کے بعد سائنس دانوں نے خالق کا انکار کیا ہے یا نہیں ؟
جناب وحید الدین خاں صاحب کا ایک مقالہ ’نظریۂ ارتقا‘ زندگی مئی ۱۹۶۱ء میں شائع ہواتھا اور غالبا ًیہ مقالہ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پڑھا تھا۔ اس مقالے میں انھوں نے سمپن کے حوالے سے پہلے جرثومۂ حیات کے خالق کے بارے میں اہم سوال کے جواب کا یہ ترجمہ دیاہے
’’زندگی کی بالکل ابتدائی شکل ابھی تک سائنس کو معلوم نہیں ہوسکی اور نہ موجودہ حالات میں اس کی امید ہے کہ کبھی معلوم ہوسکے۔ البتہ ہمارا مطالعہ نہ صرف اس امکان کی شہادت دیتا ہے بلکہ وہ ہمیں اس گمان غالب تک لے جاتا ہے کہ زندگی غیرنامیاتی عناصر سے خود بخود وجود میں آئی اور یہ واقعہ کسی مافوق طاقت کی مداخلت کے بغیر محض مادی عمل کے ذریعے ہواہے۔ اسی نامعلوم آغاز سے ارتقا کرکے تمام دوسری انواع حیات وجود میں آئی ہیں۔ ‘‘(میننگ آف ایوولیشن صفحہ ۱۷۶)
جناب اکرام الدین الٰہ آبادی کا ایک طویل مقالہ ’مسئلہ ارتقا‘ زندگی میں بالا قساط شائع ہواتھا۔ انھوں نے ایک قسط میں واحد الخلیہ کیڑے سے لے کر بندراور اس کے بعد انسان کی ارتقائی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھا ہے
’’یہ نظریہ چند منکرین خدا فلاسفہ کے رجحان طبع کا نتیجہ ہے۔ خدا کی ذات وصفات اور اس کی حکمتوں کا انکار کرنے کے بعد ان کے ذہنوں میں اس نظریے کے سواکوئی دوسرا نظریہ پیداہی نہیں ہوسکتا تھا۔‘‘ (زندگی جنوری۱۹۵۶ صفحہ۱۵)
ڈارون خدا کا منکر نہ تھا لیکن اس نے ارتقاء آدم کا سبب خدا کے ارادے اوراس کی حکمت کو قرار نہیں دیا بلکہ اس کے نزدیک اس کا سبب بقائے اصلح، تنازع للبقا اور انتخاب فطری تھا۔ محترم اکرام الدین صاحب ڈارون کے وقت یورپ کے ذہنی رجحانات کا جائزہ لینے کے بعد لکھتے ہیں
’’مادہ پرستوں نے جب اس مقالہ کو دیکھا تو ان کی مانگی مراد ملتی نظر آئی۔ انھوں نے لاینحل سوالات کے جواب اس مقالے سے اخذ کرلیے۔ ان میں سب سے زیادہ بنیادی اور اہم سوال یہ تھا کہ ہمارے جسم کے مختلف اعضا کی ساخت وترتیب سے ایک مقصدیت کا اظہارہوتاہے جسے بغیر ایک حکیم وعلیم ذات کی مداخلت کے پیداہونا ثابت نہیں کیا جاسکتا۔خالص میکانکی طاقت کے ذریعے جسم کے اعضاکی حرکت تو ثابت کی جاسکتی ہے لیکن ان کی حرکت میں جو مقصدیت پائی جاتی ہے اس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔اس مسئلے کا حل مادہ پرستوں نے ڈارون کے بقا اصلح، فطری انتخاب اور تنازع للبقا کے اصول ثلاثہ سے اخذ کرلیا۔چناں چہ ڈارون کے پیش کردہ مقالہ (اوریجن آف اسپینر) کی اشاعت،ان مادہ پرستوں کے ذریعے بہت زوروں سے ہوئی اوراس کی ہزاروں اور لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں۔ ‘‘ (زندگی دسمبر۱۹۵۵ء،صفحہ ۵۱)
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف زندگی کی ابتدائی شکل ہی کے بارے میں نہیں بلکہ تمام عالم کے بارے میں یہ طے کر لیاگیا کہ اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔ فاضل مکتوب نگار اچھی طرح باخبر ہیں کہ فلاسفہ یونان کی طرح کسی ہستی کو محض علت العلل کی حیثیت سے مان لینا ایک بات ہے اور کائنات کے تمام دروبست میں ایک علیم وحکیم ہستی کی تخلیق وتکوین، اس کے علم وحکمت اوراس کے ارادے اورمشیت کو کارفرماتسلیم کرنا بالکل دوسری بات ہے۔ ڈارون بھی بس فلاسفہ یونان ہی کی طرح خدا کا قائل تھا۔ انھوں نے اس کے جن آخری جملے کا ترجمہ پیش کیا ہے وہ بھی بتارہاہے کہ ایک خالق نے زندگی کی ابتدا کردی اور اس کا کام ختم ہوگیا۔ اس کی فتنہ انگیز کتاب کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ اس نے ارتقائے آدم کی ایسی تشریح کی کہ اس میں کہیں خدا کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس لیے اس کے بعد اس نظریے کے اساتذہ نے اس ’بے ضرورت چیز ‘ کا انکار کردیا اور یہ احمقانہ رائے اختیار کرلی کہ زندگی کی ابتدا بھی کسی خالق کی مداخلت کے بغیر ہی ہوئی تھی۔انھوں نے ارتقاء آدم کی اس تفصیل کو بھی جسے اس کتاب نے مرتب کیا تھا بےدلیل عقیدے کی طرح مان لیا اور خالق کا انکار کربیٹھے۔ یورپ کے ملحدانہ فلسفوں اور باطل نظریات سے اچھی طرح واقف لوگوں نے اس کتاب کو الحاد کی جڑ قراردیا ہے۔
نومبر اور دسمبر کے دوشماروں میں ایک تازہ مضمون ’نظریۂ ارتقا‘ شائع ہواہے۔ اس میں ایک جگہ جناب اقبال اعظمی ایم اے نے لکھا ہے
’’ارتقا میں کسی مافوق الفطرت طاقت کے وجود کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ عالم آب وگل اوراس کے مکین تخلیق کا نتیجہ نہیں ہیں۔ ‘‘ (زندگی نومبر ۱۹۶۹ءصفحہ ۲۷)
دوسر ی جگہ لکھتے ہیں
’’نظریۂ ارتقا میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ روئے زمین پرحیات کا پہلا ذرہ اپنے آپ ہی غیر ذی روح مادے سے وجود میں آیا۔‘‘ (زندگی دسمبر۶۹ء صفحہ۲۰)
یہاں یہ چند حوالے محض اس شہبے کو دور کرنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں کہ زندگی کے ایڈیٹر نے اپنے نوٹ میں جو بات لکھی تھی وہ سنی سنائی باتوں پر مبنی نہ تھی۔یہ نوٹ طویل ہوتاجارہاہے اس لیے آخرمیں ڈارون کی تشریح ارتقاء آدم پرایک تنقید نقل کرکے اس کو ختم کرتاہوں۔
ایٹمی انرجی کمیشن کے ایک ماہر علم الابدان ڈاکٹر ٹی۔این نمیشن نے بہت صاف گوئی سے کام لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں
’’وہ سائنس داں جو ادھر ادھر اس بات کا درس دیتے پھر رہے ہیں کہ ارتقا زندگی کی ایک حقیقت ہے وہ ایک لطیفہ گوسے کم نہیں ہیں۔ اور وہ داستان یا لطیفہ جو وہ سنارہے ہیں وہ دنیا کا سب سے دلچسپ لطیفہ ہے۔ ارتقا کی تشریح کےوقت ہم ذرہ برابر بھی حقیقت سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قیاس آرائیوں کا ایک الجھا ہواگنجلک کھیل یا اعدادوشمارکی شعبدہ بازی ہے۔‘‘
(زندگی،نومبر۱۹۶۹ء نظریۂ ارتقا، ص ۲۸)
(فروری ۱۹۷۰ء، ج۴۴، ش۲)