نکاح میں نام کی غلطی

 ایک صاحب کی دوغیرشادی شدہ لڑکیاں ہیں۔ سلیمہ اور کلیمہ۔ میری نسبت بڑی لڑکی سلیمہ سے طے پائی لیکن نکاح کے وقت بجائے سلیمہ کے کلیمہ کا نام لیاگیا اور تین بار اسی کلیمہ کے نام پر ایجاب وقبول ہوا۔ نکاح کے فارم پربھی لڑکی کے والد کی غلطی سے نام کلیمہ ہی کا تحریر کیاگیا، مگر نیت ہرایک کی یہی تھی کہ نکاح سلیمہ سے ہورہاہے۔ اب آپ بتائیں کہ

(۱) میرا نکاح سلیمہ سے ازروئے شرع صحیح ہوایا نہیں ؟ (۲) یا خدانخواستہ کلیمہ کے ساتھ ہوگیا۔ (۳) نام تبدیل ہوجانے سے کوئی فرق پڑا یا نہیں اور نیت وارادہ کا اعتبار ہوگا یا نہیں ؟ (۴) کیا مجھے سلیمہ سے نکاح کرنا ہوگا؟

جواب

 اگر نکاح کے وقت لڑکی کانام غلط لیاگیا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اگر اس طرح کہاگیا ہوکہ فلاں شخص کی بڑی لڑکی کلیمہ کانکاح تم سے کردیا اور آپ نے قبول کرلیا تو کسی لڑکی سے بھی نکاح نہیں ہوا۔ کیوں کہ بڑی لڑکی کلیمہ نہیں بلکہ سلیمہ ہے اور اگر بڑی کا لفظ نہیں کہاگیا ہے بلکہ جیسا کہ آپ کے خط سے اندازہ ہوتا ہے صرف یہ کہاگیا ہے کہ فلاں شخص کی لڑکی کلیمہ کا نکاح تم سے کردیا اور آپ نے قبول بھی کرلیا ہے، تو کلیمہ کا نکاح آپ کے ساتھ ہوگیا۔ اس میں نیت اور ارادے کا اعتبار نہ ہوگا۔ جو نام نکاح کے وقت لیاگیاہے، نکاح اسی لڑکی سے منعقد ہوگا۔ سلیمہ کے بجائے آپ کی بیوی کلیمہ ہوگئی ہیں۔ اگر خلوت صحیحہ نہیں ہوئی ہے تو اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ آپ کلیمہ کو ایک طلاق دے دیں۔ خلوت صحیحہ سے پہلے جو طلاق دی جاتی ہے اس میں عورت کو عدت گزارنا نہیں ہوتا۔ اس لیے طلاق دینے کے فوراً بعد آپ سلیمہ سے نکاح کرسکتے ہیں۔ سلیمہ سے نکاح اس وقت تک صحیح نہیں ہوگا جب تک آپ کلیمہ کو طلاق نہ دے دیں، اس لیے کہ اس سے آپ کا نکاح منعقد ہوچکا ہے۔

(اگست ۱۹۶۷ء ج۳۹ ش ۲)