پنرجنم اور عقیدۂ آخرت کے سلسلے میں آپ نے جو جواب دیا ہے اس سے یہ الجھن تو دور ہوگئی کہ اس کی زد عقیدۂ آخرت پرنہیں پڑتی لیکن آپ کے جواب سے دوسری الجھن پیدا ہوگئی۔ آپ نے لکھاہے ’’کسی روح کا دوسرے جسم میں داخل ہوکر اسی موجودہ دنیا میں واپس آنا اور اسلامی عقیدۂ آخرت دوالگ چیزیں ہیں۔ اگر پہلی چیز ثابت بھی ہوجائے تو دوسری چیز غلط نہیں ہوگی۔‘‘
میں سنتا ہوں کہ مرنے کے بعد روحیں ایک خاص مقام پر رکھی جاتی ہیں۔ منکر نکیر سوال کرتے ہیں۔ عذاب قبر ہوتا ہے۔ ایصال ثواب کیا جاتا ہے۔ اب اگر روح کا کسی دوسرے جسم میں واپس آنا ثابت ہوجائے تو ان عقائد پراس کی زد پڑے گی۔ پھر کیسے منکر نکیر سوال کریں گے؟ کس طرح عذاب قبر ہوگا؟ اور کس طرح ایصال ثواب کیاجائےگا؟ پھر یہ کہ ان واقعات کو ڈرامے کس طرح قراردیا جائے؟ پروفیسر بنرجی کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس پانچ سوواقعا ت ہیں اور میں نے دوسال قبل سیارہ ڈائجسٹ (پاکستان) میں اس قسم کا ایک مضمون پڑھاتھا۔ ان ورقوں کو جن میں وہ واقعہ درج تھا اس سے نکال کر آپ کو بھیج رہاہوں۔ اس کے لکھنے والے کسی ایسی قوم سے تعلق نہیں رکھتے جو آواگمن کو مانتی ہو۔
جواب
اس سے خوشی ہوئی کہ آپ کی عقیدۂ آخرت والی الجھن دور ہوگئی لیکن آپ کا یہ خط پڑھ کر مجھے یہ الجھن ہوئی کہ معلوم نہیں آپ کے ذہن کی اصل الجھن کیا ہے؟ اگر آپ میرے جواب پراچھی طرح غورکرتے تو یہ نئے سوالات پیدا ہی نہ ہوتے۔(میرا جواب زندگی دسمبر ۱۹۶۷ء میں بھی شائع ہواہے) آپ کو میرا جواب پڑھ کر سوچنا چاہیے تھا کہ جو چیز پروفیسر بنرجی کے نزدیک بھی ثابت نہیں ہے اور جو صریحاً عقل اور مشاہدے کے خلاف ہے آپ ایک ایسے وہمی اور فرضی مسئلے کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں ؟ میں نے جوکچھ لکھا تھا اس کے بعد تو آپ کو پروفیسر بنرجی سے سوالات کرنے چاہیے تھے لیکن اس کے بجائےنئے نئے سوالات پیدا کرکے آپ مجھ سے جواب طلب کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ڈراموں پرپروفیسر صاحب بلکہ تناسخ کا عقیدہ رکھنے والوں سے بھی زیادہ آپ نے یقین کرلیا ہے اور آپ کا ذہن طرح طرح کے سوالات پیدا کررہاہے۔
میں اگر چاہتا تو آپ کے پہلے ہی خط کا جواب یہ دے سکتا تھا کہ جب پروفیسر بنرجی اور دوسرے سائنس داں اعلان کردیں گے کہ پنرجنم ثابت ہوگیا تو میں جواب دوں گا لیکن ان ڈراموں سے آپ جیسے لو گ متاثر ہورہے تھے اس لیے میں نے تفصیل سے جواب دیا اوریہ فرض کرکے دیا کہ اگر پنرجنم ثابت بھی ہوجائے تو اس کی زد عقیدۂ آخرت پرنہیں پڑےگی۔ جب آپ کی الجھن دورہوگئی تھی تو پھر آپ کو مطمئن ہوجانا چاہیے تھا۔ چوں کہ ایصال ثواب کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے پنرجنم کے فرضی اور وہمی مسئلے کے سلسلے میں آخری طورپر میں جواب عرض کررہاہوں۔
جب تناسخ کے خیال خام کی زد عقیدۂ آخرت پرنہیں پڑتی تو ایصال ثواب وغیرہ مسائل پر کیا پڑےگی۔ ایصال ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ فلاں شخص یا اشخاص کی خطائیں معا ف کردے، انھیں بخش دے اور ان پر رحم فرمائے۔ یا جو قرآن اس نے پڑھا ہےیا جوصدقہ اس نے دیا ہے اس کا اجر اللہ انھیں عطاکردے۔ اس دعا کے لیے اس شخص کا مرنا ضروری نہیں ہے، جس کے لیے دعا کی جارہی ہو۔اسی لیے مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ زندہ ومردہ دونوں ہی قسم کے اعزہ اقربا اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کیا کریں۔ یہ دعائے مغفرت ایصال وثواب کی سب سے اعلیٰ قسم ہے جو قرآن سے ثابت ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ روح جہاں کہیں بھی ہو،اللہ چاہے تو اجروثواب اس کو مل جائے گا۔ وہ آسمان میں کسی جگہ ہویا زمین میں، جسم سے باہر ہو یا جسم کے اندر اس لیے کسی روح کا دوسرے جسم میں داخل ہوکر واپس آنا ثابت ہوجائے جو قیامت تک ثابت نہیں ہوسکتا تو اس کی زد ایصال ثواب پرنہیں پڑے گی۔
پھر آپ یہ بھی دیکھیں کہ پنرجنم کا عقیدہ رکھنے والے لوگ اپنے مرنے والوں کے لیے دان پن کر رہے ہیں یا نہیں ؟ آخر وہ کیوں ایسا کررہے ہیں ؟ اس کی دوہی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ فی الواقع وہ خود پنرجنم کو ایک غیرثابت شدہ وہمی چیز سمجھتے ہیں، یا یہ کہ وہ پنرجنم کو ایصال ثواب میں مانع نہیں سمجھتے۔ تعجب ہے کہ جو لوگ تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ اس کی وجہ سے ایصال ثواب میں الجھن محسوس نہیں کرتے اور آپ جو اس کو نہیں مانتے الجھن محسوس کررہے ہیں۔ وہ بھی اس فرضی شکل میں کہ اگر پنرجنم ثابت ہوجائے تو ایصال ثواب کا کیا بنےگا؟
منکر نکیر بھی سوال اصلاً روح سے کرتے ہیں وہ جہاں کہیں بھی ہو،مثلاً جو شخص آگ میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے، منکرنکیر اس سے بھی تو سوال کرتے ہیں۔ عذاب ثواب کو محسوس کرنے والی بھی روح ہی ہے وہ جہاں بھی ہو۔ ان مسائل کا پنرجنم کے ثبوت وعدم ثبوت سے تعلق نہیں ہے۔ اگر پنرجنم آپ جیسے لوگوں کے نزدیک کوئی حقیقت بھی رکھتا ہوتو منکر نکیر کو سوال کرنے سے کون روک دے گا؟ اور اگر وہ مستحقِ عذاب ہے تو اس کی روح پرعذاب کیوں نہیں ہوسکے گا؟
آپ نے سیارہ ڈائجسٹ کا جو تراشا بھیجا ہے اس نے تو میرے اس خیال کو ثابت کردیا کہ خود تناسخ کا عقیدہ رکھنے والے ان واقعات کو عملی اہمیت نہیں دیتے۔ان واقعات کو وہ بھی ڈرامے ہی سمجھتے ہیں کیوں کہ اس تراشے میں اس کی صراحت ہے کہ جس لڑکی نے اپنے پچھلے جنم کے حالا ت سنائے تھے اس کو اس خاندان کے حوالے نہیں کیا گیا تھا جس کے حالات اس نے بیان کیے تھے۔اور نہ اس شوہر کے حوالے کیا گیا جس کی وہ پہلی بیوی تھی حالاں کہ اس کا پہلا خاندان بھی موجود تھا۔ تعجب ہے کہ اس تراشے کو آپ نے مزید ثبوت کے طورپر کیسے بھیجا۔ اس واقعہ کا ترجمہ انگریزی میں ہوا تھا۔اور اس سے ترجمہ کرکے سیارہ ڈائجسٹ میں شائع کیاگیا۔ پروفیسر بنرجی نے جو پانچ سوواقعات جمع کیے ہیں ان کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں ہوسکتا ہے توکیا ان ترجموں سے یہ واقعات ثابت ہوجائیں گے اور ترجمہ کرنے والا کوئی عیسائی یا یہودی یا مسلمان ہوتو ترجمہ کے جرم میں اس کو تناسخ کا قائل، یا ان واقعات کی صحت کا قائل تسلیم کرلیا جائے گا؟ مجھے آپ کی عمر نہیں معلوم لیکن اس دوسرے خط سے اتنا اندازہ ہواکہ آپ ابھی ذہنی طورپر یقیناً نابالغ ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسلامی تعلیمات پرکتابیں پڑھیں۔ اب اردو میں بھی اس پراچھی سے اچھی کتابیں موجود ہیں۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ اس طرح کی وہمی الجھنوں میں مبتلا نہ ہوں گے۔ (فروری ۱۹۶۸ء، ج ۴۰،ش۲)