میں ایک سخت الجھن میں گرفتار ہوگیاہوں، یہ الجھن پروفیسر ایس۔ این بنرجی کا پنرجنم سے متعلق مضمون پڑھ کرپیدا ہوئی ہے۔ یہ مضمون ہفتہ وار اردو بلٹز (۹؍ستمبر۱۹۶۷ء)کے صفحہ ۱۰ پر شائع ہواہے۔ شاید دسویں قسط ہے۔ ازراہ کرم میرے اس سوال کو ردی کی ٹوکری میں نہ پھینکیں۔ اگرچہ اسلام کے متعلق میں بہت کم جانتا ہوں لیکن میرایقین ہے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے۔ میں انٹرمیڈیٹ کاطالب علم ہوں۔ شفقت کے انداز میں میری الجھن دور فرمائیں۔ اس مضمون کے تین تراشے آپ کی خدمت میں بھیج رہاہوں۔ پروفیسربنرجی کے مطابق پنرجنم ہوتا ہے۔انھوں نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے اگر ان کو صحیح مان لیاجائے تو اسلام کے عقیدۂ آخرت پریقین باقی نہیں رہے گا۔خدا سے دعاکیجیے کہ میری زندگی صراط مستقیم پرگزرے اور میری موت بھی اسی پر ہو۔ اس مضمون کو پڑھ کر میں سخت پریشانی میں مبتلا ہوں۔ آخر یہ واقعات کیوں ؟ یہ تو بظاہر صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو میراجی چاہتاہے کہ خوب روئوں۔ گم راہ کن خیالات دماغ میں چکر لگانے لگتے ہیں۔ اس سے میری پڑھائی بھی متاثر ہورہی ہے۔ خدا کےواسطے آپ میری مدد کیجیے۔
جواب
میں نے بلٹز کے تراشے پڑھے۔ آپ نے انھیں پڑھ کر یہ الجھن محسوس کی کہ اگر ان واقعات کو صحیح مان لیا جائے تو اس کی زد اسلام کے عقیدۂ آخرت پرپڑتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے ان کو صحیح مان بھی لیں تو اس سے عقیدۂ آخرت پرایسی کوئی زد نہیں پڑتی کہ اس پر یقین باقی نہ رہے، بلکہ فی الواقع ان سے ان سائنس دانوں اور بے دینوں کے نظریہ پرزد پڑتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد جس طرح انسان کا جسم فنا ہوجاتا ہے اسی طرح اس کی روح بھی فنا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دانوں نے ابھی پنرجنم کو ثابت شدہ حقیقت تسلیم نہیں کیا ہے۔ ابھی وہ صرف اس کا امکان تسلیم کرنےلگے ہیں کہ شاید روح فنانہ ہوتی اور وہ دوبارہ کسی جسم میں لوٹتی ہو اور یہ امکان بھی ہندوستان کے سائنس داں تسلیم کررہے ہیں جہاں کی ایک ریاستی حکومت نے اس کی تحقیق کے لیے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اگر اس امکان میں کوئی جان ہوتی تو دنیا کے بڑے بڑے سائنس داں ادھر متوجہ ہوجاتے اور دنیا کی ترقی یافتہ حکومتوں میں اس کی تحقیق کے لیے ادارے قائم ہوجاتے۔
آپ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ پروفیسر بنرجی کے مطابق پنرجنم ہوتاہے۔ پتا نہیں آپ نے یہ بات کہا ں سے معلوم کی ہے؟ جو تراشے آپ نے بھیجے ہیں ان میں تو انھوں نے کئی جگہ پنرجنم کامحض امکان تسلیم کیا ہے یعنی یہ کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ نہیں کہ واقعی ایسا ہوتا ہے۔ شاید آپ نے ان کی عبارتوں پرغورنہیں کیا ہے۔ سب سے پہلے آپ کو ان مضامین کے دوعنوانوں پرغورکرنا چاہیے تھا۔ پہلا عنوان یہ ہے کہ ’کیا موت زندگی کے سفر کی آخری منزل ہے؟ ‘اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ ان واقعات کی وجہ سے اس بات میں شک پیدا ہوگیا ہے کہ موت کے بعد روح بھی فنا ہوجاتی ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ روح فنا نہ ہوتی ہو۔ دوسرا عنوان یہ ہے کہ ’پنرجنم پرسائنسی تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘اس سے بھی یہی معلوم ہوا کہ ابھی پنرجنم کوئی ثابت شدہ چیز نہیں ہے بلکہ تحقیق کی طالب ہے۔ واقعات بیان کرنے کے بعد بھی پروفیسر صاحب نے اسی طرح کی باتیں لکھی ہیں۔
۲۶؍اگست ۱۹۶۷ء والے مضمون کے اخیر میں وہ لکھتے ہیں
’’اس مسئلے کا بہت بڑا حصہ سائنٹفک چھان بین کا طالب ہے، زبانی غوروخوض یا علمیت ہماری رہ نمائی نہیں کرسکتی۔ واحد راستہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو خالص استدلالی طریقوں پرجانچاجائے۔‘‘
۱۹؍اگست والے مضمون میں تو انھوں نے بالکل صاف لکھا ہے
’’ابھی تک ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ابھی ہم نے پنرجنم کو ایک امکان کے طورپر قبول کیا ہے۔‘‘
آپ نے جو تراشے بھیجے ہیں ان میں کا آخری تراشا ۹؍ستمبر ۱۹۶۷ء کا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں
’’اس علم پر تحقیقات کرنے والوں کو یقین ہے کہ اس میدان میں نئے انکشافات کے لیے کافی وسیع گنجائش ہے اور اس میدان میں کام یابی حاصل ہوگئی تو انسانی شخصیت پراس کا انتہائی گہرا اثر پڑے گا۔ ہم ان انقلابی انکشافات کے منتظر ہیں۔ ‘‘
اس عبارت میں بھی اعتراف کیاگیا ہے کہ ابھی کام یابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہوگئی تو انسانی شخصیت پراس کا انتہائی گہرا اثر پڑے گا۔ ان تمام عبارتوں سے معلوم ہوا کہ خود پروفیسر بنرجی کے نزدیک ابھی پنرجنم ثابت نہیں ہوا ہے۔ معلوم نہیں آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ان کے نزدیک پنرجنم ہوتاہے۔
اب میں آپ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتاہوں کہ اسلام نے جس عقیدۂ آخرت کی تعلیم دی ہے وہ کیا ہے؟
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا جس میں انسان زندگی بسر کررہاہے ہمیشہ کے لیے نہیں بنائی ہے بلکہ اسے بناکر اس نے انسانوں کو اس میں ان کے عقائد واعمال کی آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور اس آزمائش کی ایک مدت مقرر کردی ہے۔ جب یہ مدت پوری ہوجائے گی جس کا علم صرف اسی کو ہے تو وہ اس دنیا کو ختم کردے گا اور تمام انسانوں کو دوسری دنیا میں دوبارہ زندہ کرے گا اور ہر انسان کی روح اسی جسم میں داخل کی جائے گی جس میں وہ اس دنیا کے اندر تھی اور پھر سب کا حساب کتاب ہوگا۔ اللہ کے ایمان دار اور فرماں بردار بندے جنت میں داخل کیے جائیں گے اور بے ایمان ونافرمان بندے دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ آپ آخرت کے اس عقیدے کو ذہن نشین رکھ کر غور کریں۔ پنرجنم یا آواگمن میں روح اس جسم میں واپس نہیں آتی بلکہ کسی دوسرے جسم میں داخل ہوکر واپس آتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا کسی انسان کے جسم میں داخل ہوکر لوٹنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ کسی جانور، کیڑے مکوڑے، درخت اور گھاس کی جون (قالب) میں بھی واپس آتی ہے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیں کہ ایسا ہوتا ہے تواس سے اسلام کے عقیدۂ آخرت کو کیا نقصان پہنچے گا اوراس پر یقین کیوں باقی نہیں رہے گا؟ محض اتنی بات مان لینے سے یہ کیسے لازم آجائے گا کہ یہ دنیا ختم ہونے والی نہیں ہے اور انسان دوبارہ اپنے سابق جسم میں زندہ ہونے والا نہیں ہے؟ پنرجنم کی زد اس عقیدے پر کیسے پڑے گی جس میں انسان اپنے سابق جسم کے ساتھ زندہ ہونے والا ہے۔ اور اس وقت جب یہ موجودہ دنیا برباد کردی جائے گی اور دوسری دنیا بسائی جائے گی۔ کسی روح کا دوسرے جسم میں داخل ہوکر اسی موجودہ دنیا میں واپس آنا اور اسلامی عقیدۂ آخرت دوالگ چیزیں ہیں۔ اگر پہلی چیز ثابت بھی ہوجائے تو دوسری چیز غلط نہیں ہوگی اور پروفیسر بنرجی کے بیان سے معلوم ہوچکا ہے کہ ابھی پہلی چیز یعنی پنرجنم ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس صورت حال میں عقیدۂ آخرت کے بارے میں کوئی الجھن پیش نہیں آنی چاہیے۔
اب میں بہت اختصار کے ساتھ آپ کو بتانا چاہتاہوں کہ تناسخ یا پنرجنم کاعقیدہ صرف اتنا ہی نہیں ہے جتنا ان واقعات سے معلوم ہوتاہے۔ پنرجنم کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں جتنے انسان اور حیوان اور درخت پائے جارہے ہیں وہ سب پچھلے جنم کی یا تو سزاکاٹ رہے ہیں یا جزا یعنی اچھا بدلہ پارہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتا ہے کہ انسان اور حیوان اوردرخت ہونا پچھلے جنم کے اعمال کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ مثلاً دنیا کا ہرکتاپچھلے جنم میں کوئی انسان تھا جس کو برے عمل کی سزا میں کتے کی جون (قالب) دےدی گئی ہے۔ اسی طرح یہاں جو انسان بھی موجود ہے اس کو پچھلے جنم کے عمل کے بدلے انسان کا جسم دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ قالب یا جسم کی تبدیلی ویسی ہی ہے جیسے کہ ایک زندہ انسان اپنا پرانا لباس اتار کرنیا لباس پہن لیتا ہے۔ جس طرح لباس بدلنے سے آدمی نہیں بدلتا بلکہ وہی رہتا ہے جو پہلے تھا۔ اسی طرح پنرجنم سے آدمی نہیں بدلتا بلکہ وہی رہتا ہے جو پہلے تھا۔ دوسری جون کی حیثیت محض لباس بدلنے کی ہوتی ہے۔ آپ غورکیجیے کہ یہ عقیدہ کوئی معقول عقیدہ ہوسکتا ہے ؟ یہ تواتنا غیرمعقول ہے کہ اس کے مطابق اس دنیا میں کسی مخلوق کی ابتدا ہوہی نہیں سکتی۔اوراس عقیدے کو ماننے والے لوگ مخلوق کی ابتدا کسی جون سے بھی قرار نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ ہرقالب سے پہلے ایک اور قالب ضروری ہے، تاکہ بعد والے قالب کو پہلےقالب کے عمل کا نتیجہ قراردیاجائے۔ اس طرح ایک لامتناہی سلسلہ چلے گا جو کہیں ختم نہ ہوگا اور جب کہیں اس کی حدنہ ہوگی تو کسی مخلوق کی ابتدا بھی نہیں ہوسکے گی۔ یہ سوال اٹھاکر دیکھیے کہ سب سے پہلا انسان اس دنیا میں کس طرح پیدا ہواتو اس عقیدے کے مطابق اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔اس لیے کہ اس کے مطابق کسی کا انسان ہونا پچھلے جنم کے عمل کا نتیجہ ہے اور رہاسوال سب سے پہلے انسان کے بارے میں تو پچھلا جنم کہا ں سے آئے گا؟
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس عقیدے کے مطابق کوئی انسان اس دنیا میں سرے سے موجودہی نہیں ہے تو کوئی جانور اور درخت بھی موجود نہ ہوگا کیوں کہ جانور اور درخت ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ پچھلے جنم میں کوئی انسان ہوجس کو سز ا کے طورپر جانور اور درخت کا قالب دیا گیا ہو۔ اور کوئی انسان پیدا ہی نہیں ہوا تو جانور اور درخت کہاں سے پیدا ہوگا۔گویا یہ دنیا مخلوقات سے خالی پڑی ہوئی ہے۔سوچیے کہ عقل وہوش رکھنے والا کوئی آدمی اس کو صحیح تسلیم کرسکتا ہے؟ایک ایسا عقیدہ جو صریح عقل او رمشاہدے کے خلاف ہے اس کی وجہ سے کسی مسلمان کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
اب رہا یہ سوال کہ ان واقعات سے پنرجنم کا عقیدہ کیوں ثابت نہیں ہوگا اور یہ واقعات کیوں پیش آتے ہیں ؟ اس سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ پہلے یہ تو ثابت ہوجائے کہ حقیقتاً یہ واقعات پیش بھی آئے ہیں یا نہیں ؟ کیا اتنے اہم واقعات کو جن کا تعلق عقیدے سے ہومحض ایک شخص کی روایت پر مان لیا جائے اور وہ شخص بھی اس قوم سے تعلق رکھتا ہے جو پنرجنم کو معلوم نہیں کب سے مانتی چلی آرہی ہے؟ پھر صورت حال یہ ہے کہ وہ شخص یعنی پروفیسر بنرجی بھی جوان واقعات کو بیان کرنے والے ہیں ان کو پنرجنم کے ثبوت کے لیے کافی نہیں سمجھتے بلکہ محض اس کا امکان تسلیم کرتے ہیں اور سائنسی طریقے پر تحقیق کی ضرورت کا اعلان کرتے ہیں۔ پھر ہم لوگ آخر کس بنیاد پر ان قصوں کو واقعات مان لیں ؟ بہرحال فرضی طورپر ہم انھیں واقعات مان بھی لیں تو پھراس کا جواب یہ ہے کہ چند جزئی واقعات سے کسی عقلی طورپر ثابت شدہ عقیدے کی تائید تو ہوسکتی ہے لیکن ان واقعات کو ایسے عقیدے کے لیے جو صریح عقل اور مشاہدہ کے خلاف ہے، دلیل اور ثبوت کے طورپر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ پہلے پنرجنم کے عقیدے کو ثابت کرنا ہوگا تب یہ واقعات اس کی تائید کرسکیں گے۔ پنرجنم کے عقیدے کو ماننے والے لوگ پہلے اس دنیا میں انسان کے وجود کو ثابت کرکے دکھائیں کیوں کہ اس عقیدے کے مطابق یہ دنیا ابھی خالی پڑی ہوئی ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ پنرجنم کوماننے والے اور ان واقعات کو بیان کرنے والے لوگ بھی ان کو محض عجیب وغریب قصوں کے سواکوئی سنجیدہ اورعملی حیثیت نہیں دیتے، پھران کی توجیہ پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ پنرجنم کے عقیدے میں قالب بدلنے سے آدمی نہیں بدلتا بلکہ وہی رہتا ہے جو پہلے تھا۔ لیکن ہم ان واقعات میں کہیں نہیں پاتے کہ اس عقیدے کو ماننے والوں میں کسی نے بھی اس کو عملاً تسلیم کیاہو۔ مثلاً ۹؍ستمبر۱۹۶۷ء کے ہفتہ وار بلٹزمیں جو واقعہ بیان کیاگیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے
’’ایک لڑکے گوپال کا جنم دہلی کے گیت پریوار میں ۱۹۵۶ء میں ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے پچھلے جنم میں متھرا میں رہتا تھا اور اس کی دوائیوں کی ایک کمپنی سکھ سنچارک نام کی تھی۔ اس نے کہا کہ میں برہمن ہوں اور شرما خاندان کاہوں۔ میرے والد متھرا میں رہتے ہیں۔ میرے تین بھائی ہیں اوران میں سے ایک نے مجھے گولی مارکر ہلاک کردیا تھا۔ تحقیق کی گئی تواس کی تمام باتیں سچی نکلیں۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی اور بھائی کو بھی پہچان لیااورا س نے اپنی بھابھی پر الزامات لگائے لیکن اپنی بیوی سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ تحقیقات سے معلوم ہواکہ وہ اپنی بیوی سے ناراض تھا۔اس نے اپنی دکان بھی پہچان لی۔ اس نے اپنا سابق نام شکتی پال بتایا۔اس کے خاندان نے اس کی تمام باتوں کی تصدیق کی۔‘‘
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس تحقیق وتصدیق کے بعد کیا گوپال کو شکتی پال شرما تسلیم کرلیاگیا اور شکتی پال ہونے کی حیثیت سے اس کے تمام حقوق مان لیے گئے۔ پنرجنم کے عقیدے کے مطابق شکتی پال ٹھیک وہی شکتی پال تھا جو قتل کیاگیا تھا اور گوپال کے قالب میں آنے کی حیثیت صرف لباس بدلنے کی تھی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ پھراس کو شکتی پال کیوں تسلیم نہیں کیاگیا؟ اس کی وجہ اس کے سوااور کیا ہوگی کہ دہلی کے گیت خاندان اورمتھرا کے شرما خاندان نے اس کو بس ایک عجیب وغریب افسانہ قراردیا۔ گوپال گوپال ہی رہا اور شکتی پال کو کن اچھے یا برے اعمال کے نتیجے میں یہ نیا جسم ملاتھا اس کا اس واقعہ میں کہیں پتا نہیں ہے؟ حالاں کہ پنرجنم کادارومدار سزا اور جزا کے نظریے پرہے، کیا پروفیسر بنرجی اسی اصل بات کی تحقیق کرنا بھول گئے؟
تیسرا جواب یہ ہے کہ ہم مسلمان شیطان کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک جنات میں بھی شیطان ہوتے ہیں اورانسانوں میں بھی۔ اور یہ دونوں قسم کے شیطان انسان کو اپنا آلۂ کار بھی بنالیتے ہیں۔ گوپال اوراس طرح کے دوسرے لڑکے، شیطان کے آلۂ کارہوں گے۔ ان کی زبان سے پچھلے جنم والی روح نہیں بول رہی ہوگی بلکہ شیطان بول رہا ہوگا۔ ویسے زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ واقعات خود انسانوں کے مرتب کیے ہوئے ڈرامے ہیں۔ (دسمبر۱۹۶۷ء،ج ۳۹،ش۶)