بالعموم شادی کی بات چیت کے دوران کہاجاتا ہے کہ جہیزدینا سنت ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو رسول ﷺ نے اپنی چاروں صاحب زادیوں میں کس کو کیا جہیز دیا؟
خلفاء راشدین، دوسرے صحابہ کرام، صحابیات، تابعین، تبع تابعین کے واقعات، سیرت میں شادیوں کے ضمن میں جہیز کےلین دین کا تذکرہ کیوں نہیں ملتا؟ اگر جہیز دینا سنت ہے تو کس درجہ کی سنت ہے؟حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقع پررسول ﷺ نے جو چند چیزیں ان کو دی تھیں کیا ان کی حیثیت جہیز کی تھی؟ آج بھی عرب ممالک میں جہیز کا تصور نہیں پایا جاتا۔ وضاحت سے بتائیے کہ جہیز کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب
آپ نے اپنے خط میں جو باتیں لکھی ہیں انھیں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ جہیز دینا سنت نہیں ہے۔ میں ماہنامہ زندگی میں پہلے بھی جہیز کے بارے میں اپنی رائے واضح کرچکا ہوں۔ جون ۱۹۶۷ء کے شمارے میں ’لازمی جہیز- ایک معاشرتی ناسور‘ کے عنوان سے ایک مختصر تحریر میں نے شائع کی تھی اور اس میں لکھا تھا
’’مسلمان معاشرے میں بھی شادی کے وقت لڑکیوں کو جہیز دینے کی جو رسم جاری ہے اس نے ایک ایسے واجب کی حیثیت اختیار کررکھی ہے جس کے بغیر نکاح اور بیاہ کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ اسی طرح لڑکی والوں کی طرف سے دولہا میاں کو روپے اور دوسرا سامان دینے کا رواج اس کثرت سے چل پڑا ہے کہ یہ چیز بھی ’ضروریات نکاح‘ میں داخل ہوگئی ہے۔ اس تباہ کن رسم ورواج نے لڑکیوں کے نکاح کو لاینحل مسئلہ بنادیا ہے اور عنقریب والدین کے لیے لڑکیاں ناقابل برداشت بوجھ بنتی جارہی ہیں۔ ‘‘
اسی تحریر میں جہیز کی حیثیت میں نے ان الفاظ میں واضح کی تھی
’’لڑکی کوشادی کے وقت جہیز دینے کا حکم نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث میں اور نہ فقہ میں۔ عہد رسالت میں صرف ایک مثال موجود ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ کو نیا گھر بسانے کے لیے چند چیزیں مرحمت فرمائی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مدینہ منورہ میں کوئی گھر موجود نہ تھا اور نہ وہ صاحب مال تھے۔نکاح کے بعد انھوں نے کرایہ کامکان لے کر حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کرائی تھی۔ نیا گھر بسانے کے لیے حضورﷺ نے ایک پلنگ، ایک چادر، دوچکیوں اور ایک مشکیزہ کا انتظام فرمادیا تھا۔ اس ناگزیر ضرورت کی وجہ سے حضورﷺ نے یہ چند چیزیں حضرت فاطمہؓ کے ساتھ بھیج دی تھیں۔ یہ لڑکی کو جہیز دینے کی کوئی رسم نہ تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضورﷺ نے اپنی ایک دوسری صاحب زادی کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کیا تھا۔ لیکن ان صاحب زادی کو آپ نے کوئی چیز عطا نہیں فرمائی جس کو بہانے کے طورپر بھی جہیزکہا جاسکے، اس لیے کہ حضرت عثمانؓ صاحب مال تھے۔ پہلے سے ان کا گھر بسا ہواتھا اور انھیں کسی سامان کی ضرورت نہ تھی۔ اس واقعہ سےزیادہ سے زیادہ جو چیز ثابت ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ شادی کے وقت لڑکی کو اس کی ضرورت کے پیش نظربہ سہولت کچھ چیزیں دی جاسکتی ہوں تو دینا جائز ہے۔ اس کو ایک رسم بنالینا، بلکہ آگے بڑھ کر ضروری قراردے لینا اور پھر اس واقعہ کو سند بنانا بالکل غلط ہے۔‘‘
اس مسئلہ کی وضاحت مختلف گوشوں سے مختلف انداز میں کی گئی ہے، مگر اس کے اثرات بہت کم نمایاں ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کےغیرمسلم معاشرے سے متاثر ہوکر مسلم معاشرے میں بھی لڑکی کو جہیز دینے کی موجودہ رسم جاری ہوئی۔ پھر اس رسم کو بہت سےعلماء ومشائخ کے طرزِ فکر وطرزِ عمل سے شہ ملی اور یہ اس معاشرے میں بھی سرایت کرگئی۔ اب ہزاروں لاکھوں افراد کے اغراض ومفادات اس سے وابستہ ہوگئے ہیں اس لیے اس لعنت کاختم ہونا آسان نہیں ہے۔ لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ اس کو ختم کرنے کی کوشش برابرجاری رکھیں۔ (دسمبر۱۹۷۶ء ج۵۸ ش۶)