’زندگی‘ نومبر ۱۹۷۱ء میں ۷۲فرقوں والی حدیث کی تاویل نظر سے گزری اور دل کو لگی، مگراس سلسلے میں ذیل کی باتوں کو سامنے رکھ کر مزید کچھ رقم فرمائیں تو شایداور بھی طمانینت قلب کاباعث ہو۔
علامہ شبلی نعمانی مرحوم نے سیرت النعمان مطبوعہ رنگین پریس دہلی صفحہ ۱۰۳ میں لکھا ہے
’’محدثین اورامام ابوحنیفہؒ کے اصول میں عملاًیہ فرق ہے کہ جو حدیث اصول متفق علیہ کے خلاف ہوتی تھی محدثین اس کی صحت کو تسلیم کرکے تاویل سے کام لیتے تھے حالاں کہ اکثر جگہ محض بارد تاویل ہوتی تھی۔ بخلا ف اس کے امام صاحب اس طرف مائل ہوتے تھے کہ چوں کہ وہ حدیث متواتر اورمشہور نہیں ہے اس لیے ممکن ہے کہ رواۃ نے غلطی یا مسامحت کی ہو۔‘‘
نیزآگے چل کر صفحہ ۱۰۴ پرتحریر فرماتے ہیں
’’مثلاً یہ مسلم اور یقینی ہے کہ جو شخص توحید اور نبوت کا قائل ہے اور دل سے اس پر اعتقاد رکھتا ہے وہ قرآن کی نص کے مطابق مسلمان ہے۔ اب اس کے مقابلے میں وہ حدیثیں جو قطعی الثبوت نہیں ہیں اور جن میں بہت سے خارجی امور پر کفر کا حکم دیاگیا ہے کچھ اثر پیدا نہیں کرسکتیں۔ اسی بناپر امام صاحب معتزلہ، قدریہ، جہمیہ وغیرہ کو کافرنہیں کہتے تھے اور اس قسم کی حدیثوں کاکہ بہترفرقوں میں سے صرف ایک فرقہ بہشتی ہے اور باقی دوزخی اعتبار نہیں کرتے تھے۔‘‘
علامہ شبلی کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ۷۲فرقے والی حدیث ہی امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک معتبرنہ تھی۔ علامہ نے کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔اگر حوالے کے ساتھ آپ شبلی کی عبارت کی توضیح فرمادیں تو آپ کے دلائل اور موکد ہوجائیں گے۔
جواب
یہ بات کہ ’’بہتر فرقوں والی حدیث کا امام ابوحنیفہؒ اعتبار نہیں کرتے تھے‘‘ علامہ شبلی نے کہاں سے لکھی ہے مجھے نہیں معلوم۔ البتہ علامہ شبلی نے خود صراحتاً اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ وہ ’’امام صاحب اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے تھے‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں
’’رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہرفریق نے دوسرے کی ضلالت وگم راہی ثابت کرنے کے لیے موضوع روایتوں سے اعانت لی اور اس قسم کی حدیثیں ایجاد ہونے لگیں کہ میری امت میں ۷۳ فرقے پیداہوں گے جن میں صرف ایک جنتی ہوگا باقی سب دوزخی۔‘‘
(سیرت النعمان حصہ دوم صفحہ ۳۲، مطبعہ مفید عام آگرہ)
علامہ شبلی نے جس طرح امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب قول کا حوالہ نہیں دیا اسی طرح اس حدیث کے موضوع ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں دی۔ اگراس حدیث کی سند میں کوئی راوی وضاع یا کذاب ہے تو کم سے کم اجمالاً اس کا ذکر ان کو کرنا چاہیےتھا۔ راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ جس طرح کسی حدیث سے کوئی شرعی حکم اخذ کرنے کے لیے اس احتیاط کی ضرورت ہے کہ حدیث کے صحیح یا ضعیف یا موضوع ہونے کی تحقیق کرلی جائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ کسی حدیث کو بے دھڑک موضوع نہ کہا جائے اس میں بھی احتیاط برتی جائے۔
یہ حدیث میرے علم کی حدتک نہ سنداً موضوع ہے اور نہ اپنے معنی ومفہوم کے لحاظ سے اس لائق ہے کہ ا س کو موضوع قراردے دیا جائے۔ اس حقیر نے نومبر ۷۱ ۱۹ءکے شمارے میں اس حدیث کا جو مفہوم بیان کیا ہے اس سے معلوم ہواکہ کسی اہل قبلہ گروہ کو کافر قرار دینے یا نہ دینے سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں مسلمانوں کو اختلاف عقائد واعمال سے بچنے اور کتاب وسنت کی پیروی کی طرف متوجہ کیاگیا ہے۔
آپ خودعالم دین ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ بہت سی صحیح ترین احادیث ایسی ہیں کہ اگر دوسرے قطعی الثبوت دلائل کو سامنے رکھ کر ان کا صحیح مفہوم نہ بیان کیاجائے تو ثابت شدہ عقائد سے ان کا ٹکرائو لازم آتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا یہ روش صحیح ہوگی کہ ان کو بے دھڑک موضوع کہہ دیاجائے؟ ظاہر ہے کہ یہ روش صحیح نہ ہوگی۔ صحیح روش یہ ہوگی کہ ان کا ایسا مفہوم بیان کیا جائے جس سے ظاہر ی تضاد ختم ہوجائے۔ مثلاً بخاری ومسلم کی ایک صحیح ترین حدیث یہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’چغل خورجنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘
غورکیجیے کہ بہتر فرقوں والی حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ زیادہ چونکادینے والی ہے یا بخاری ومسلم کی یہ حدیث۔ اس میں توبدعقیدہ وبدعمل گروہوں کے بارے میں ’فی النار‘ کہاگیا ہے اور اس حدیث میں صرف ایک بدعملی پریہ فرمایاگیا ہے کہ چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔اب کیا اس حدیث کو نعوذ باللہ موضوع کہہ کر رد کردیا جائے؟
احادیث کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مختلف قسم کی نیکیوں کی نسبت جنت کی طرف اورمختلف قسم کی برائیوں کی نسبت دوزخ کی طرف کی گئی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنت نیکیوں کا گھر ہے اور دوزخ برائیوں کاگھر ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو نیکیوں کی طرف لپکنا چاہیے اور برائیوں سے بھاگنا چاہیے۔ ترغیب وترہیب کے اس انداز سے ذخیرۂ احادیث بھراہواہے۔ جس عمل خیر پر جنت کی بشارت اورجس عمل شرپر دوزخ کی وعید سنائی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ تنہا وہ عمل خیر کسی کو جنت کا اولین مستحق اورتنہاوہ عمل شر کسی کو دوزخ کا مستحق بنادیتاہے۔کیوں کہ یہ مطلب دوسرے قطعی الثبوت دلائل کے خلاف ہوگا۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر چغل خوروالی حدیث پرغورکیجیے تواس کا صحیح مفہوم یہ ہوگا کہ اگر کوئی مسلمان چغل خوری کوجائز اوراچھا سمجھ کر یہ عمل کرتاہے تواسے اپنے ایمان کی خیرمنانی چاہیے۔ کیوں کہ چغل خوری بہ نص قرآن ناجائز اور براعمل ہے۔ یا پھر اس حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ جب تک یہ مسلمان اپنے اس عمل کی سزانہ بھگت لے یا اس کی معافی نہ ہوجائے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر بہتر فرقوں والی حدیث کا بھی صحیح مطلب سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان کہلانے والا فرقہ جان بوجھ کر اس عقیدہ وعمل کو ترک کردے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے تو پھر وہ مسلمان کس بنیاد پر باقی رہے گا؟ اوراگر ایسا نہیں ہے تو پھر دوسرے دلائل سے یہ فیصلہ ہوگا کہ اس کی گم راہی کس درجے کی ہے؟
(جنوری ۱۹۷۲ء،ج۴۸،ش۱)