کیا ایسا قانون بنانا جائز ہو گا کہ ایک مسلمان کسی جائداد کو کسی کے نام اس شرط پر منتقل کر دے کہ جسے منتقل کی گئی ہے اس کی وفات کے بعد وہ جائداد منتقل کرنے والے یا اس کے ورثا کی طرف عود کر آئے گی؟
جواب

اسلامی فقہ میں اس کے لیے ’’عمریٰ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ،ؒ امام شافعی ؒ اور امام احمدؒ بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ جو جائداد اس طرح منتقل کی گئی ہو وہ پھر منتقل کرنے والے یا اس کے ورثا کی طرف عود نہیں کر سکتی خواہ انتقال کی دستاویز میں صریح طور پر یہ شرط درج ہی کیوں نہ کر دی گئی ہو کہ وہ مُعمرکی وفات کے بعد مُعمِر یا اس کے ورثا کو واپس مل جائے گی۔ بخلاف اس کے امام مالکؒ کہتے ہیں کہ جو جائداد مُعمِر کو صرف حینِ حیات کے لیے دی گئی ہو وہ آپ سے آپ اس کی وفات کے بعد معمر یا اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ اِلاّیہ کہ معمر نے تصریح کر دی ہو کہ وہ اسے اور اس کے وارثوں کو دی گئی ہے۔({ FR 2193 }) اس بارے میں احادیث زیادہ تر پہلے ہی قول کے حق میں ہیں اور غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔ جس جائداد کے ساتھ ایک شخص کا مفاد صرف حینِ حیات تک وابستہ ہو وہ آخر عمر میں آ کر اس سے دل چسپی لینا چھوڑ دیتا ہے اور اس کی اولاد بھی جانے والی چیز سے غفلت برتنے لگتی ہے۔ اس طرح حینِ حیات کا ہبہ ضیاعِ مال کا موجب ہوتا ہے اور جب اصل مالک یا اس کی اولاد کو جائداد تباہ شدہ حالت میں ملتی ہے تو اسے بھی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے شریعت کا منشا یہ ہے کہ ہبہ کیا جائے تو مستقل طور پر کیا جائے ورنہ حینِ حیات کے ہبہ سے نہ کرنا بہتر ہے۔ اس منشا کی توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے کہ
أَمْسِكُوا عَلَيْكُمْ أَمْوَالَكُمْ وَلَا تُفْسِدُوهَا، فَإِنَّهُ مَنْ أَعْمَرَ عُمْرَى فَهِيَ لِلَّذِي أُعْمِرَهَا حَيًّا وَمَيِّتًا وَلِعَقِبِهِ({ FR 1973 })
’’اپنے اموال اپنے ہی پاس رکھو اور ان کو برباد نہ کرو۔ جو شخص کسی کو حینِ حیات کے لیے کچھ دے تو وہ چیز اسی کی ہے جس کو وہ دی گئی، اس کی زندگی میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد بھی، اور وہ اس کے بعد اس کے پس ماندوں کے پاس رہے گی۔‘‘