جواب
عنایت نامہ ملا۔ میرا خیال ہے کہ اب میرا نقطۂ نظر اچھی طرح آپ کے سامنے واضح ہوسکے گا۔ براہِ کرم حسبِ ذیل اُمور میں غور فرمائیں :
میرے مقالے کا موضوع ہے اس خاص مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ کا مسلک اور آپ استدلال میں پیش فرما رہے ہیں مذہب حنفی کے اقوال۔ آپ جیسے ذی علم اور فقیہ النفس بزرگ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہوسکتی کہ مسلکِ ابی حنیفہ اور مذہبِ حنفی ایک چیز نہیں ہیں ۔ مسلک ابی حنیفہ کا اطلاق صرف امام اعظمؒ کے اپنے اقوال و افعال پر ہی ہوسکتا ہے۔ رہا مذہبِ حنفی تو اس میں امام صاحب کے علاوہ اصحابِ ابی حنیفہ اور بعد کے مجتہدین فی المذہب بھی شامل ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں بھی مذہبِ حنفی قرار پائی ہیں جو امام اعظمؒ سے ہی نہیں ، آپ کے اصحاب سے بھی ثابت نہیں ہیں ، حتیٰ کہ ایسے مسائل بھی موجود ہیں جن میں مذہبِ حنفی کا فتویٰ امام اعظمؒ کے قول کے خلاف ہے۔
ابو بکر جصاص، الموفق المکی اور ابن البزاز ؒ چاہے درجۂ اول کے فقیہ نہ ہوں ، لیکن اس درجہ فقہ سے نابلد تو نہیں ہوسکتے کہ اپنے مذہب کے سب سے بڑے امام سے وہ اقوال اور افعال بلا تحقیق منسوب کر دیتے جو ان کے تحقیق شدہ مسلک کے خلاف ہوتے۔ خصوصاً جصاص ؒ تو امام اعظمؒ سے بہت قریب زمانے میں گزرے ہیں ۔ امام کی وفات اور ان کی پیدائش کے درمیان صرف ۱۵۵ سال کا فاصلہ ہے اور بغداد میں وہ ان اکابر احناف سے وابستہ رہے ہیں جن کے درمیان مدرسۂ ابی حنیفہ کی روایات پوری طرح محفوظ تھیں ۔ اگر امام صاحب کی طرف کوئی غلط روایت افواہ کے طور پر منسوب ہوتی تو وہ آخری شخص ہوتے جو اسے حاطب اللیل کی طرح احکام القرآن جیسی اہم فقہی کتاب میں نقل کر بیٹھتے اور امام اعظمؒ کا اس مسلک سے رجوع ثابت ہوتا تب بھی وہ اس سے نہ بے خبر رہتے اور نہ اس کو چھپاتے۔
امام کے رجوع کا گمان اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو منصور ان کی جان کے درپے نہ رہتا بلکہ اس کے بعد تو اس کے اور امام کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ مزید براں کسی نے اشارۃً و کنایۃً بھی یہ نقل نہیں کیا ہے کہ امام نے کبھی نفسِ زکیہ کے خروج میں حصہ لینے کو غلط تسلیم کیا ہو۔
میرے نزدیک یہ امر تو شبہہ سے بالاتر ہے کہ مسئلۂ زیر بحث میں امام اعظمؒ کا مسلک وہی تھا جو ان کے نقل شدہ اقوال و افعال سے ثابت ہے۔ البتہ مذہبِ حنفی بعد میں وہی قرار پایا ہے جو آپ نقل فرما رہے ہیں اور یہ مذہب قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ کے دَور میں جو راے اصحابِ حدیث کے ایک گروہ کی تھی (جسے امام اَوزاعیؒ کے حوالے سے مَیں نے اپنے مضمون میں نقل بھی کیا ہے) دوسری صدی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے وہی راے اہلِ سنت والجماعت کے پورے گروہ میں مقبول ہوگئی اور اسی راے کو متکلمین میں سے اشاعرہ نے (بمقابلۂ معتزلہ) اختیار کیا۔ اس راے کی مقبولیت در حقیقت نصوصِ قطعیہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان تجربات کا اس میں بہت بڑا دخل ہے جو خروج کے واقعات کے سلسلے میں مسلسل ہوتے رہے تھے۔ اس بنا پر مصالح شرعیہ کا تقاضا وہی کچھ سمجھا گیا جو فقہاے کرام نے بیان کیا ہے۔ لیکن مجھے اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ائمہ جور کے خلاف خروج کے معاملے میں پہلی صدی ہجری کے ائمہ و اکابر کی وہ راے ہو جو بعد والوں نے قائم کی۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ۱۹۵۷ء کے اواخر میں جو بین الاقوامی مجلسِ مذاکرہ لاہور میں ہوئی تھی اس میں انگلستان کی ایک مستشرقہ نے باقاعدہ یہ اعتراض کیا تھا کہ اسلامی نظامِ حکومت اگر ایک دفعہ بگڑ جائے تو پھر اس کی تبدیلی کی کوئی صورت اسلام میں نہیں ہے۔ اس اعتراض کے حق میں اشاعرہ اور فقہاے اہلِ سنت کے اقوال پیش کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ بگاڑ رونما ہوجانے کی صورت میں فقہا کی ان تصریحات کے مطابق صرف انفرادی طور پر کلمۂ حق تو بلند کیا جاسکتا ہے مگر کوئی اجتماعی سعی نہیں ہوسکتی۔ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب مسلک ابی حنیفہ کو پیش کرنے کے سوا نہ تھا۔ اب اگر یہ بھی غلط ہو تو پھر اس اعتراض کا کوئی جواب ہمیں آپ بتائیں ۔
قتال اہل البغی کے معاملے میں یہ امر تو مسلم ہے کہ اگر وہ مسلح ہو کر مقابلہ کریں تو ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا جاسکتا ہے اور ان کے برسرِ جنگ لوگوں کے مال بھی لُوٹے جاسکتے ہیں ۔ لیکن کیا بات بھی صحیح ہے کہ جس علاقے میں انھوں نے بغاوت کی ہو اس علاقے کی ساری آبادی مباح الدم والاموال ہوجاتی ہے اور ان کا قتلِ عام کیا جاسکتا ہے؟ اگر حکم فقہی کی تعبیر یہی ہو تو پھر یزید کی فوجوں نے واقعۂ حَرہ کے موقع پر مدینۂ طیبہ کی آبادی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ جائز ہونا چاہیے۔ اس پر صحابہؓ و تابعینؒ اور بعد کے علما و فقہا نے جو شدید اعتراضات کیے ہیں ان کا آخر کیا جواز ہے؟ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۴ء)