پیشاب کرتے وقت احتیاط نہ کرنے پرعذاب

ایک حدیث میرے مطالعہ میں آئی ہے ،جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ دو (۲) قبروں  کے پاس سے گزرے۔آپؐ نے فرمایا ان دونوں پرعذاب ہورہا ہے۔ ان میں سے ایک چغلی کرتاتھا اوردوسرا پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتاتھا۔پھر آپؐ نے ایک درخت سے ایک ٹہنی توڑی اور اس کے دوٹکڑے کرکے دونوں قبروں پرلگادی اورفرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں ہری رہیں گی، امید ہے کہ ان دونوں پرعذاب میں  تخفیف ہوجائے گی۔
حدیث سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ دونوں  عذاب پانے والے کون تھے؟ یہ مومن تھے یا کافر؟ا وریہ کس زمانے کا واقعہ ہے اورکہاں کا ہے ؟اگر وہ کافر تھے تو صرف انہی دونوں کاموں پرعذاب کیوں ؟ وہ توایمان ہی سے محروم تھے اور اس سے بڑی سزا اور عذاب کے مستحق تھے۔ اگرمومن تھے تو بھی صرف انہی اعما ل پر عذاب کا ذکر کیوں ؟انھوں نے، ممکن ہے، دوسرے گناہ بھی کیے ہوں ،پھر حدیث میں  ان پرسزاکا ذکر کیوں نہیں ہے؟امید ہے، میرے ان اشکالات کو دورفرمائیں گے۔

کعب احبار کون ہیں ؟

ایک کتاب میں بہت سےصحابہ کرام کی حکایات جمع کرکے پیش کی گئی ہیں ۔ اس میں حضرت کعب احبار کے بارے میں تحریر ہے:
’’ کعب احبار کہتے ہیں : ا س ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر میں اللہ کے خوف سے رؤوں اورآنسو میرے رخسار پر بہنے لگیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کروں ۔‘‘ ( حکایاتِ صحابہ ص ۳۹)
ایک دوسری کتاب میں لکھا گیا ہے :
’’کعب احبار سے نقل کیا گیا ہے کہ جوکثرت سے اللہ کا ذکر کرے وہ نفاق سے بری ہے ۔‘‘ (فضائل ذکر، ص ۵۵)
براہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حضرت کعب احبار کیا وہی ہیں جن کا تذکرہ غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانےوالوں میں ہوا ہے، یا یہ کوئی اورصحابی ہیں ؟

انبیا وصلحاکے حدودو اختیارات

ہمارے یہاں کی جامع مسجد میں امام صاحب نماز جمعہ سے قبل بہت تفصیل سے خطبہ دیتے ہیں ، جس میں وہ دین کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھاتے ہیں اور قرآنی آیات اوراحادیث نبوی سے استدلال کرتے ہیں ۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نفع ونقصان کےمعاملے میں اپنے رسول کوبھی اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح ہدایت کا معاملہ بھی اس نے اپنے پاس رکھا ہے ۔ کسی کوبھی، حتیٰ کہ کسی رسول یا کسی ولی کوبھی اس کا اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم بھی اپنے ساتھ خاص رکھا ہے ۔ کل کیا ہوگا؟ اس کی کسی انسان کو خبر نہیں ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا ہے : ’’ یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کروں گا ، مگر ان شاء اللہ کہو ‘‘۔ امام صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں شرک کرنے والوں نے جن جن کومعبود بنایا ہوگا اورانہیں خدا ئی میں شریک کیا ہوگا ، روزِقیامت اللہ تعالیٰ انہیں ان کے روٗبروٗ کھڑا کرے گا اور پوچھے گا کہ کیا انہوں نے اپنے پیروکاروں کواس کا حکم دیا تھا ؟ ان میں انبیاء بھی ہوں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اور صالحین بھی۔ سب برأ ت کا اظہار کریں گے۔
نماز جمعہ کے بعد بعــض لوگوں کے درمیان چے می گوئیاں ہونے لگیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں کوئی اختیار نہیں ہے ، اسی طرح ان کی غیب دانی کا انکار کرنا ان کی توہین اوران کے حق میں گستاخی ہے۔ اسی طرح انبیاء وصلحاء کوان کے پیروکاروں کے سامنے کھڑا کرکے ان سے وضاحت طلب کرنا بھی ان کی توہین ہے۔ اس لیے امام صاحب کوایسی بات نہیں کرنی چاہیے اور انہوں نے جوکچھ کہا ہے اس پر معذرت طلب کرنی چاہیے۔
بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں ، کیا امام صاحب نے خطبہ میں جوباتیں کہی ہیں وہ غلط ہیں اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے ان کی تائید نہیں ہوتی۔

گدھا- رسول اللہ ﷺکی سواری؟

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ جناب طالب ہاشمی کی کتاب ’خیر البشر کے چالیس جاں نثار ‘ میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کے تذکرہ میں ایک جگہ ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے :’’ میں ایک دن گدھے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوارتھا اور آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔‘‘ (ص۳۰۷:) یہ بات بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ گدھا چھوٹے قد اورمعمولی قسم کا جانورہے ۔ اس پر سواری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی جسامت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ دو اشخاص اس پر سوارہی نہیں ہوسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گدھے کی سواری زیب نہیں دیتی اورآپؐ کے پیچھے ایک صحابی کا بیٹھنا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔
مجھے سنہ۲۰۱۱ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی اورتقریباً پینتالیس دنوں تک سعودی عرب میں میرا قیام رہا ۔ اس عرصہ میں مکہ معظمہ ، منیٰ ، عرفات اور مدینہ منورہ وغیر جانا ہوا ۔ پورے سفر میں کہیں بھی مجھے گدھا نظر نہیں آیا ۔کہیں ایسا تونہیں ہے کہ مصنف نے انگریزی الفاظ ASSیا DONKEY کا ترجمہ ’گدھا ‘ کردیا ہو ، جب کہ ان الفاظ کا اطلاق خچر پر بھی ہوتا ہے ۔ جسمانی ساخت میں خچر گھوڑے سے کم تر، لیکن اس کی نسل سے ہوتا ہے ۔ اسے سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جب کہ گدھے کوکہیں سوار ی کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس طرح کے جملوں کا استعمال بے ادبی محسوس ہوتی ہے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جملے خارج کردیے جائیں ۔

بعض احادیث کی تحقیق

سود کی ممانعت کے موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے :
عَنْ اَبی ہُرَیرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْباً اَیْسَرُہَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ
(رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان )
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سود کی شناعت ستر درجہ بڑھی ہوئی ہے اس کے مقابلے میں کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔‘‘
اس تمثیل پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں درج ذیل بیانات کی روشنی میں غور کیجئے:
۱- آپؐ استنجا کرتے وقت زمین کے قریب بیٹھ کر کپڑا ہٹاتے تھے۔
۲- آپؐ کا چرواہا ، جوبارہ سال کی عمر کا لڑکا تھا ، ایک مرتبہ بکریاں چرانے کے دوران بغیر کپڑے کے سورہا تھا ۔ اس حرکت کی وجہ سے آپ ؐ نے اسے برخواست کردیا ۔
۳- احادیث میں ہے کہ آپؐ نے نہ اپنی کسی زوجہ کی شرم گاہ کودیکھا نہ کسی زوجہ نے آپ کی شرم گاہ کودیکھا۔
۴- حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ تنہائی میں بلا ضرورت بغیر کپڑے پہنے رہنا مناسب نہیں ۔ اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
۵- زنا کے قریب جانے کی حرکت ہی نہیں ، بلکہ گفتگو سے بھی سخت منع کیا گیا ہے ۔
۶- نگاہ کی خرابی کوزنا کی پہلی سیڑھی قرار دیا گیا ہے ۔
۷- زانی کے لیے کوڑے اورسنگ ساری کی سزا ہے ۔
۸- فحش باتیں پھیلانے والوں کو فوج داری سزا دی گئی ہے (واقعۂ افک )
۹- جماع کے وقت بھی کپڑے پوری طرح ہٹانے سے منع کیا گیا ہے ۔
عریانیت اورزنا کے تعلق سے اتنی حساس تعلیمات دینے والی ہستی کیوں کر ایسی تمثیل بیان کرسکتی ہے جومذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس حدیث کورد کردیا جائے ، صرف اتنی درخواست ہے کہ اس کے سلسلے میں توقف اختیار کیا جائے اور اس کو مت بیان جائے ، تاآں کہ سند اور درایت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرلی جائے ۔

جان کنی کے وقت سورۂ یٰسٓ کی تلاوت

سورۂ یٰسٓ کوقرآن کا دل کہا جاتا ہے۔ کیا یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے؟
جان کنی کے وقت سورۂ یٰسٓ کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جان نکلنے کے بعد مردے کے پاس بھی اس کی تلاوت کی جانی چاہیے۔
اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے ۔ کیا یہ باتیں احادیث سے ثابت ہیں ؟

سورۃ النجم کا زمانۂ نزول

سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ یہ سورہ سنہ پانچ نبوی میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کی دلیل کے طورپر مولا نا نے مختلف روایتیں نقل کی ہیں ۔ سورہ کے دیباچہ میں تاریخی پس منظر بھی زمانۂ نزول کی روایتوں کوتقویت بخشتا ہے ۔
اس سورہ میں دومرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کا ذکرہے۔ پہلی ملاقات پہلے نزول وحی کے وقت (آیات ۷تا۱۰) اور دوسری ملاقات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی تھی (آیات ۱۳تا ۱۸)۔ ظاہر ہے ، سدرہ کے پاس حضور کی موجودگی سفر معراج کے واقعہ کا حصہ ہے ، جس کا زمانہ معتبر روایات کی روٗ سے ہجرتِ مدینہ سے ایک سال قبل سنہ ۱۲ نبوی کا ہے ۔ پھر سورۂ نجم میں سفر معراج میں پیش آنے والے ایک واقعہ کاذکر کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ جب کہ وہ واقعہ ابھی پیش ہی نہیں آیا۔
کیا سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کی کوئی اورروایت یا تحقیق ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہوکہ وہ ہجرتِ مدینہ سے قریب نازل ہوئی تھی ؟ یاواقعہ معراج کوابتدائی دورِ نبوت میں مانا جائے؟
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔

قرآن مجید میں  آیات ِ سجدہ

قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم پندرہ(۱۵) مقامات پرسجدہ کریں ۔ پھر ہم صرف چودہ(۱۴) مقامات پرسجدہ کیوں کرتے ہیں ؟ ایک مقام پرسجدہ کیوں چھوڑدیتے ہیں ؟ کیا ایک امام کی پیروی اللہ اوراس کے رسول کی پیروی سے بڑھ کر ہے؟ براہِ کرم سنن ابی داؤد کی یہ حدیث (نمبر ۱۴۰۲) ملاحظہ کیجیے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:کیا سورئہ حج میں دوسجدے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا:’’ ہاں  اورجس نے ان آیتوں پرسجدہ نہیں کیا، اس نے گویا ان کی تلاوت ہی نہیں کی۔‘‘

لفظ ’قلب ‘ اوراس کے مترادفات میں فرق

قرآن کریم میں تین الفاظ آئے ہیں : قلب، فؤاد، صدر۔ عام طور پر مترجمین تینوں کا ترجمہ ’دل ‘ سے کرتے ہیں ۔ کیا ان کے درمیان کچھ فرق ہے یا یہ ہم معنی ہیں ؟

غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت

قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس میں کسی غلطی کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا، لیکن بشر کے کلام میں غلطی اور سہو کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن ومختصر حواشی میں سورہ ٔ کہف کی آیت ۲۵کا یہ ترجمہ کیا ہے :’’ اوروہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمارمیں ) ۹سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘لیکن انہوں نے آیت ۲۱پر یہ فٹ نوٹ لکھا ہے:
’’یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیاتو دنیا بدل چکی تھی ۔بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان ، تہذیب ، تمدن، لباس، ہرچیز میں نمایاں فرق آگیاتھا۔ دوسو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان، ہرچیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا اور جب اس نے پرانے زمانے کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دوکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص توان پیروانِ مسیح میں سے ہے جو دوسو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آنا فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا ۔ اب جواصحابِ کہف خبردار ہوگئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تووہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کرکے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی ‘‘۔ (ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی، سورہ ٔکہف ،حاشیہ ۵)
قرآن مجید واضح طورسے بیان کررہاہے کہ ’’وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘، لیکن مولانا مودودیؒ مذکورہ فٹ نوٹ میں بار بار ’دوسوسال ‘ کہتے ہیں ۔یہ ان سے چوک ہوگئی ہے ۔ یہ غلطی بشر ہونے کی صاف دلیل ہے ، لیکن اس تسامح سے مولانا مودودی کی عظمت ، بزرگی اور جلالتِ شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مولانا مودودی مرحوم ہمیں بتاگئے ہیں کہ ’’تنقید سے بالا تر کوئی نہیں اورپیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم عن الخطا نہیں ۔‘‘ مولانا صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’وہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے ‘‘ اللہ کا قول ہے ، یہ انسانوں کا قول نہیں ہے۔‘‘ میرا معروضہ یہ ہے کہ ہم جمہور مفسرین کی بات مانیں گے یا مولانا موددی کی ؟‘‘