کیا ہمارے ملک میں قانون سازی کے لیے اور پھر عدالتوں کے ذریعے ان قوانین کے نفاذ اور تعبیر و تشریح کے لیے ہر فقہ کے اپنے اپنے علما کو اختیارات دیے جائیں گے؟

ملکی قوانین اور پرسنل لا کا مسئلہ

موجودہ آئین میں بنیادی حقوق کے ترمیمی قانون کے ذریعے اضافہ شدہ پرنسپلز آف پالیسیز کے تحت جہاں یہ درج ہے کہ ملک کے قوانین اسلام کے خلاف نہیں ہوں گے وہاں یہ لکھا گیا ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح ہر فرقہ اپنے عقائد کے مطابق خود کرے گا۔ کیا آپ بھی اس کے قائل ہیں ؟

فقہی مسالک کے لیے لفظ ’’مذاہب‘‘ کا استعمال

جنوری کے ترجمان القرآن میں آپ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حنفی فرقہ یا شافعی فرقہ کے لیے حنفی مذہب یا شافعی مذہب کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ میرا مذہبی علم ایک عام مسلمان کا سا ہے جو مذہب کو ان فرقہ بندیوں سے کچھ اوپر تصور کرتے ہیں ۔ کیا ہم سب فرقوں کا مذہب ایک نہیں ہے؟

مقدمات کا کسی دوسری فقہ پر فیصلہ

اگر حنفی اور شافعی نقطۂ نظر کے درمیان اختلاف ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ حنفیوں کے معاملے میں صرف حنفی نقطۂ نظر ہی قبول کیا جائے؟ اور خاص کر جہاں عدالت اس راے پر پہنچے کہ شافعی نقطۂ نظر زیادہ وزن دار ہے؟

دوسرے فقہی مذاہب پر عمل کا حکم

ہمارے اس زمانے میں مذاہب ِ اربعہ میں سے کسی ایک کی پابندی پہلے سے زیادہ لازمی ہوگئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی صاحب علم وفضل چار معروف مذاہب فقہ کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے یا اجتہاد کرنے کا حق دار ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کس دلیل سے؟اور اگر جائز ہے تو پھر طحطاوی میں ایک بڑے صاحب کما ل فقیہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
اَلْمُنْتَقِلُ مِنْ مَذْھَبٍ إِلٰی مَذْھَبٍ بِإِ جْتِھَادٍ وَبُرْھَانٍ اٰثِمٌ یَسْتَوْجِبُ التَّعزِیْرَ۔ ({ FR 2049 })

اجتہاد کے حدود اور وضو کرنے کی حکمت

میرے ایک جرمن نومسلم دوست ہیں جن سے میرا رابطہِ مراسلت قائم ہے۔وہ مجھ سے اپنے بعض علمی وعملی اشکالات بیان کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ حال ہی میں ان کا ایک خط آیا ہے جس میں انھوں نے دریافت کیا ہے کہ فقہی احکام میں ’’اجتہاد‘‘ کے اصول کے تحت کہاں تک تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بہت سے تفصیلی احکام فقہا کے اخذ کردہ اور مرتب کردہ ہیں اور نبیﷺ کی وفات کے بعد بعض خاص جغرافیائی اور تمدنی حالات کی پیداوار ہیں ۔ کئی صدیوں تک تو اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا تھا مگر اس کے بعد اصولاً ضرورت اجتہاد کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاًاسے بند کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں بالخصوص یورپ کے مسلمانوں کو بعض احکام کی تعمیل میں دشواری پیش آتی ہے ۔مثال کے طور پر وہ وضو کے مسئلے کو لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وضو میں ہر مرتبہ پائوں دھونا اہل یورپ کو مشکل اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ وہاں لوگ ہمیشہ جراب اور بند جوتے استعمال کرتے ہیں ،اس لیے پائوں کے گرد آلود یا ناپاک ہونے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ سردیوں میں پائوں دھونا آسان بھی نہیں ہوتا۔یہی معاملہ منہ دھونے کا ہے۔یورپ کے شہروں میں بالعموم مٹی نہیں اُڑتی اورپسینہ بھی براے نام آتا ہے اس لیے ان کے نزدیک منہ اور پائوں کا دن میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہونا چاہیے۔
آپ براہِ کرم میرے دوست کے خیالات پر صحیح اسلامی نقطۂ نظر سے تنقید کریں اور اس کا جو پہلو اصلاح طلب ہو، واضح فرمائیں ، تاکہ میں انھیں اطمینان بخش جواب دے سکوں ۔

قرآن وسنت سے ما ٔخوذ قوانین کی حیثیت

آپ نے فرمایا ہے کہ جن معاملات میں خدا کے قانون میں ہدایت موجود نہیں ہے، ان میں قانون سازی کے اختیارات عام مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں کے دلوں میں ایسے قوانین کے لیے بھی دوسرے الٰہی قوانین کی طرح احترام پیدا ہونا ممکن ہے؟

فقہی اصطلاحات اور فقہاے کرام

یہ بات مشہور ہے او رکتب متداولہ نیز ابن حزمؒ کی اجتہاد وقیاس کے خلاف یورش سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ امام دائود ظاہریؒ اوران کے اتباع،اجتہاد، استنباط، قیاس او ر استحسان کے شدیدمخالف ہیں ۔ لیکن خود ابن حزمؒ ہی کی کتابوں سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اجتہاد کے عادی ہیں ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ حقیقت الامر کیا ہے؟کیا یہ کوئی تعبیر کا فرق ہے یا سچ مچ وہ اجتہاد کے قائل نہیں ہیں ؟ اور اگر نہیں ہیں تو ان کے اپنے اجتہاد کی توجیہ اورپس منظر کیا ہے؟

تقلید اور اتباع

کتاب’’جائزہ‘‘ صفحہ ۵۵ پر ایک سوال کے جواب میں یہ عبارت آپ کی طرف منسوب ہے: ’’میرے نزدیک صاحب علم آدمی کے لیے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کوئی شدید تر چیز ہے۔‘‘ اب غور کیجیے کہ مثلاً حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت امام غزالی ؒ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ ،حضرت شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒاور حضرت مولانا اشرف علیؒ سب مقلدین ہیں ، تو کیا آپ کی عبارت کے سیاق وسباق سے ایسے لوگ مستثنیٰ ہیں یا نہیں ، یا آپ کے نزدیک یہ حضرات صاحب علم نہ تھے؟امید ہے کہ آپ اپنے منصفانہ انداز میں اپنے قلم سے جواب تحریر فرمائیں گے۔