تفہیم القرآن جلد۱، سورۂ النساء، حاشیہ نمبر۱کے تحت آپ نے لکھا ہے کہ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے بارے میں عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدمؑ کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا۔ لیکن کتاب اللّٰہ اس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔‘‘ اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ حدیث جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے یہ تو بخاری و مسلم کی ہے۔

حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار لوگ

ثانیاً آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی موجودہ انسانی نسل ان سب لوگوں کی ہے جو کہ حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔آپ نے ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل:۳ ) سے اس کی دلیل اخذ کی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ،کیوں کہ نوح ؈ کے ساتھ ان کے تین بیٹے بھی کشتی میں سوار تھے۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ سے مراد حضرت نوح؈ کے بیٹے ہیں نہ کہ کچھ اور لوگ۔دوسری جگہ اس کی تفسیر خود قرآن کے یہ الفاظ کرتے ہیں کہ وَجَعَلْنَا ذَرِیَّتَہٗ ھُمْ الْبٰقِیْن (الصافات:۷۷) کتنے کامل حصر کے الفا ظ ہیں !

حضرت ابراہیم ؈ کا دَورِ تفکُّر

آپ نے تفہیم القرآن میں سورۂ الانعام کے رکوع ۹سے تعلق رکھنے والے ایک توضیحی نوٹ میں لکھا ہے کہ:
’’وہ (حضرت ابراہیم ؑ) ھٰذَا رَبِّیْ کہنے سے شرک کے مرتکب نہیں ہوئے، کیوں کہ ایک طالب ِحق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور وفکر کے لیے ٹھیرتا ہے،اصل اعتبار ان کا نہیں بلکہ اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کررہا ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر نبوت وہبی ہوتی توحضرت ابراہیمؑ کو عام انسانوں کی طرح خدا کے الٰہ ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے میں شک اور تحقیق کی ضرورت نہ ہوتی۔اگر انھوں نے عام انسانوں کی طرح دماغی کاوشوں اور منطق وفلسفہ ہی سے اﷲ کی الوہیت کو پایا تو نبوت ایک کسبی معاملہ ہوا اور ایک فلاسفر اور نبی کے حصولِ علم میں کوئی فرق نہ ہوا۔

تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۵۵۲، سورۂ الانعام آیت۷۴ کا تفسیری نوٹ نمبر۵۰ یہ ہے:
’’یہاں حضرت ابراہیم ؈ کے واقعے کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جارہا ہے کہ جس طرح اللّٰہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خدائوں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دیا ہے، اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم علیہ السلام بھی کرچکے ہیں ۔‘‘
اس اقتباس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سلسلۂ کلام، وحی سے نوازے جانے کے بعد دعوت اور محاجّۂ قوم سے متعلق ہے۔ نبوت سے پہلے کے دورِ تفکّر کا بیان مقصود نہیں ہے جیسا کہ ’’اللّٰہ کی بخشی ہوئی ہدایت‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں ۔ پھر آیت میں دعوتِ ابراہیمی کا ذکر ہے جو ظاہر ہے نبوت کے بعد دی گئی ہے، کوئی قرینہ دورِ تفکر کا موجود نہیں ہے۔ اور پھر آیت ۷۵ کے نوٹ نمبر۵۲ کے آخر کے جملے بتاتے ہیں کہ نبوت کے بعد تبلیغ کا حال بیان ہو رہا ہے، یعنی ’’حضرت ابراہیمؑ توحید کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے‘‘ والا جملہ۔ پھر آپ نے نبی ﷺ کی معراج کے سلسلے میں اپنی کتابوں میں کئی جگہ فرمایا ہے کہ اسی طرح دوسرے انبیا کو بھی نظامِ کائنات کا مشاہدہ کرایا گیا اور ثبوت میں حضرت ابراہیمؑ کی معراج کے لیے یہی آیت نمبر۷۵ پیش کی ہے اور معلوم ہے کہ معراج نبوت کے بعد ہوتی ہے، نبوت سے پہلے نظامِ کائنات کا مشاہدہ کرانے کے لیے ’’خدائی انتظام‘‘ نہیں ہوسکتا۔ اب اس کے بعد آتی ہے آیت۷۶ جو ’’ف‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ اسے بھی آپ نے دَورِ تفکر سے متعلق قرار دیا ہے۔ میں نے بہت سوچا کہ یہ آیت دَور تفکُّر سے متعلق کس طرح ہوسکتی ہے مگر سمجھ میں نہ آیا۔ براہِ کرم اس خلجان کو دُور فرمائیں ۔ نیز وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ({ FR 1655 }) (الانعام:۷۵) جملۂ معلَّلہ ہے جس پر ’’واو‘‘ آیا ہے۔ لازم ہے کہ اس کا معطوف علیہ بھی جملۂ معلّلہ ہو، اور آپ نے جو ترجمہ فرمایا ہے اس سے بات کسی دوسری طرف نکل جاتی ہے۔ کذٰلک میں ذٰلک کا مشارٌ الیہ کیا ہے؟ لازم ہے کہ اُوپر اس کا ذکر آچکا ہو۔

حضرت ابراہیم ؈ کا ختنہ

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کا ختنہ اسّی برس کی عمر میں ہوا تھا۔
مہربانی کرکے اس حدیث سے ذہن میں جو شبہات اٹھتے ہیں ، ان کو رفع کیجیے۔

حضرت ابراہیم ؈ کی طرف کذباتِ ثلاثہ کی نسبت

بخاری میں حضرت ابراہیم ؈ (جنھیں قرآن نے صدیق نبی کا خطاب دیا ہے) کے تین جھوٹ کا ذکر ہے اور یہ تین جھوٹ بھی اس شدید نوعیت کے کہ ان کی وجہ سے وہ قیامت کے دن شفاعت کرنے سے شرمندہ ہوں گے۔ ان میں سے دو واقعات کا ذکر تو قرآن نے بھی کیا ہے۔لیکن تیسرا واقعہ، یعنی حضرت ابراہیم ؈ کا ایک زانی بادشاہ کے خوف سے اپنی بیوی کو بہن ظاہر کرنا، تو قرآن میں کہیں مذکور نہیں ۔

حضرت ابراہیم ؈ کا واقعۂ ہجرت جب کہ ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی اور ایک ظالم بادشاہ نے بدفعلی کا ارادہ کیا اور اﷲ تعالیٰ نے اس ظالم کو اپنی قدرت قاہرہ کے ساتھ اس ارادے سے باز رکھا۔آپ نے یہاں بھی اختلاف کیا ہے اور اس واقعے کو لغو قرار دیا ہے۔
آپ اس پر نظر ثانی فرمائیں یا اپنے خیالات سے رجوع فرمائیں یا مسکت دلائل تحریر فرمائیں ۔آپ کے مخالفین،خدا انھیں ہدایت دے،ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

قرآن کریم میں حضرت اسحاق و حضرت اسماعیل ؉ کا ذکر

سورۂ العنکبوت آیت۲۷ میں یوں ارشاد ہوتا ہے:
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْكِتٰبَ …
’’اور دیا ہم نے ابراہیم کواسحاق و یعقوب اور رکھی اس کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب۔‘‘
یہاں حضرت اسماعیلؑ کو بالکل چھوڑ دیا۔ حالاں کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکے سب سے بڑے صاحب زادے تھے اس لیے سب سے پہلے ان کا نام نامی آنا چاہیے تھا، جن کی نسل مبارک میں آگے چل کر حضور ﷺ نبوت سے سرفراز ہوئے۔

فریضۂ رسالت اور حضرت یونس ؈

تفہیم القرآن جلد۲ سورۂ یونس۔ جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’حضرت یونس ؈ سے فریضۂ رسالت کی ادائگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں ۔‘‘
کیا انبیا ؊ معصوم نہیں ہوتے؟ خصوصاً فریضۂ رسالت میں انبیا سے کوتاہی کیسے ممکن ہے۔
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِo لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِo ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ (الحاقۃ:۴۴-۴۶)
’’اوراگر اس (نبیؐ) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔‘‘
فریضۂ رسالت کی عدم کوتاہی میں تصریح نہیں ؟ اگر نبی سے فریضۂ رسالت میں بھی کوتاہی ہوسکتی ہے تو پھر دین خداوندی کا کیا بچ جاتا ہے؟کیا یہ مضمون موہم ہتک انبیا نہیں ؟

حضرت یوسف ؈ کا زلیخا کے ساتھ نکاح کرنے کی حقیقت

سورۂ یوسف کی تفسیر میں جناب نے لکھا ہے کہ زلیخا کو حضرت یوسف ؈ نے نکاح میں نہیں لیا،کیوں کہ قرآن کریم سے اس عورت کا بد چلن ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن کیا حضرت لوط اور حضرت نوح ؉ کی ازواج کافر نہ تھیں ؟اگر تھیں تو کفر کیا بدچلنی سے زیادہ شدید نہیں ہے؟ علاوہ بریں حضرت یوسف ؈ کے قصے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عقد نکاح کے وقت تک زلیخا مسلمان ہوچکی تھیں اور سابقہ بدچلنی سے تائب ہوگئی تھیں ۔