قرآن اور کتب مقدسہ کی تصدیق

قرآن جگہ جگہ یہودی اور مسیحی کتب کوالہامی کتابوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے مگر بائبل کے بہت سے علما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کتابیں محض تاریخی دستاویزیں ہیں جن میں سے بعض کو ایک سے زیادہ مصنفوں نے تیار کیا ہے اور ان کے اندر الہامی ہونے کی شہادت کم ہی ملتی ہے۔اب کیا قرآن ان کتابوں کے معاملے میں وحی والہام کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کرتا ہے؟کیا بائبل کے علما کی راے غلط ہے؟یا ہم یہ فرض کریں کہ محمدﷺ کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں کی کتب مقدسہ میں کوئی تغیر ہوگیا ہے؟

قرآن سمجھنے کےلیے مفید لغات

مفردات القرآن( امام راغب) اور اساس البلاغۃ(زمخشری) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟قرآن سمجھنے کے لیے اگر کوئی لغت کی مفید ومستند کتاب معلوم ہو تو مطلع فرمایئے۔

دہریّت ومادّہ پرستی اور قرآن

آپ نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں اصطلاحاتِ اربعہ کے جو معانی بیان کیے ہیں ،ان سے جیسا کہ آپ نے خودذکر فرمایا ہے، یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہ تھی جس کی طرف نبی بھیجا گیا ہو اوراس نے اسے خدا کی ہستی کو تسلیم کرنے یا خداکو الٰہ وربّ بمعنی خالق ورازق ماننے کی دعوت دی ہو، کیوں کہ ہرقوم اﷲکے فاطر وخالق ہونے کا اعتقاد رکھتی تھی۔اِ س سے بظاہر یہ شبہہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں منکرینِ خدا یعنی مادّہ پرست ملحدین اور دہریوں کا گروہ ناپید تھا،حالاں کہ بعض آیات سے ان لوگوں کا پتا چلتا ہے۔ مثلاً:
مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝۰ۚ (الجاثیۃ:۲۴)
’’بس ہماری زندگی تو یہی دنیاکی زندگی ہے کہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور یہ زمانہ(یعنی نظمِ فطرت) ہی ہمیں ہلاک کرنے والا ہے۔‘‘
نیز موسیٰ ؑ وفرعون اور نمرود وابراہیم ؑ کے مذاکروں میں بعض آیات اس امر پر صریح الدلالت ہیں کہ یہ دونوں مادّہ پرست دہریہ تھے۔مثلاً:
اَفِي اللہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ( ابراھیم:۱۰)
’’کیا خدا کے وجود میں بھی کوئی شک وشبہہ ہے جو موجدِ ارض وسما ہے؟‘‘
پھر دوسری آیت ہے:
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ (الطور:۳۵)
’’کیا وہ بدون کسی خالق کے آپ سے آپ پیدا ہوگئے یا وہ خود خالق ہیں ؟‘‘
آپ نے دوسری آیات سے استدلا ل کرتے ہوئے ان آیتوں کی جو توجیہہ کی ہے،اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان آیاتِ متمسک بہا کی دوسری توجیہیں ہوسکتی ہیں ۔

عربی قرآن پر ایمان اور اس سے استفادہ

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ({ FR 2230 })(ابراھیم:۴) پڑھ کر یہ سوچتا ہوں کہ ہماری اور ہمارے آبائ و اجداد کی زبان عربی نہیں تھی۔پھر قرآن کے عربی ہونے پر ہم کیوں نبی ﷺ کے اتباع کے مکلف ہیں ؟

قرآن مجید میں قراء توں کا اختلاف

قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا، بعد میں اختلاف قرائ ت کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کے زمانے میں صرف قریش کی زبان کی قرائ ت والا نسخہ محفوظ کر دیا گیا جو اب تک رائج ہے اور باقی جلا ڈالے گئے تو کیا اللّٰہ تعالیٰ نے باقی چھ حرفوں کی حفاظت نہیں کی اور انھیں ضائع ہو جانے دیا جب کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللّٰہ تعالیٰ نے لیا ہے؟

تدوین ِقرآن

ماہ ستمبر ۱۹۷۵ کے ترجمان القرآن میں رسائل و مسائل کا مطالعہ کرکے ایک شک میں پڑ گیا ہوں ۔ امید ہے آپ اسے رفع فرمائیں گے تاکہ سکون میسر ہو۔
’’رد و بدل‘‘ کی صریح مثال کے سلسلے میں آپ نے لکھا ہے کہ قرآن متفرق اشیا پر لکھا ہوا تھا جو ایک تھیلے میں رکھی ہوئی تھیں ۔ حضورﷺ نے اسے سورتوں کی ترتیب کے ساتھ کہیں یک جا نہیں لکھوایا تھا اور یہ کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ شہید ہوگئے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:
کیا حفاظ اسے کسی ترتیب سے یاد کرتے تھے یا بلاترتیب؟
کیا اس کی ترتیب حضرت صدیقؓ کے زمانے میں ہوئی؟
اگر ترتیب وہی حضور ﷺ کی دی ہوئی تھی تو رد و بدل کیسے ہوگیا؟
اللّٰہ نے جو قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے وہ کیا ہے؟

قرآن کی سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کا مطلب؟

قرآن مجید کا ایک وصف یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ سابقہ مذہبی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔کیااس کا یہ مطلب لیاجاسکتا ہےکہ سابقہ مذہبی کتابیں درست ہیں اورسابقہ اقوام کے سامنے صرف ان کی مذہبی کتابوں کے ذریعے دعوت پیش کی جاسکتی ہیں ؟

قرآن مجید کا ادب واحترام

اجتماعی مطالعۂ قرآن کے موقع پر کچھ لوگ مسجد کے فرش پرپالتی مارکر بیٹھ گئے اور انھوں نے قرآن مجید کو اپنی پنڈلیوں اورٹخنوں پراس طرح رکھا کہ مصحف اورپیروں کے درمیان جزدان ، کوئی کپڑا یا ان کی ہتھیلیاں بھی نہ تھیں ۔ میں  نے توجہ دلائی کہ یہ خلافِ ادب ہے تو کہا گیا کہ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں  ہے۔ مختلف طریقے لوگوں نے اپنے طورپر نکال لیے ہیں ۔
کیا اس طرح پیروں پرقرآن مجید رکھ کر پڑھنا اس کی بے ادبی نہیں ہے؟ میں  بڑی الجھن میں ہوں ۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ۔

سورۃ النجم کا زمانۂ نزول

سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ یہ سورہ سنہ پانچ نبوی میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کی دلیل کے طورپر مولا نا نے مختلف روایتیں نقل کی ہیں ۔ سورہ کے دیباچہ میں تاریخی پس منظر بھی زمانۂ نزول کی روایتوں کوتقویت بخشتا ہے ۔
اس سورہ میں دومرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کا ذکرہے۔ پہلی ملاقات پہلے نزول وحی کے وقت (آیات ۷تا۱۰) اور دوسری ملاقات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی تھی (آیات ۱۳تا ۱۸)۔ ظاہر ہے ، سدرہ کے پاس حضور کی موجودگی سفر معراج کے واقعہ کا حصہ ہے ، جس کا زمانہ معتبر روایات کی روٗ سے ہجرتِ مدینہ سے ایک سال قبل سنہ ۱۲ نبوی کا ہے ۔ پھر سورۂ نجم میں سفر معراج میں پیش آنے والے ایک واقعہ کاذکر کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ جب کہ وہ واقعہ ابھی پیش ہی نہیں آیا۔
کیا سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کی کوئی اورروایت یا تحقیق ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہوکہ وہ ہجرتِ مدینہ سے قریب نازل ہوئی تھی ؟ یاواقعہ معراج کوابتدائی دورِ نبوت میں مانا جائے؟
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔