اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کا کاٹ دینا ہے۔آج کل روزانہ سیکڑوں چوریاں ہوتی ہیں تو کیا روزانہ سیکڑوں ہاتھ کاٹے جائیں گے؟ بظاہر حالات یہ سزا سخت اور ناقابل عمل معلوم ہوتی ہے۔
زمرہ: اسلامی قانون
قرآن میں زنا کی سزا
آ پ نے میرے مضمون’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ پر جو اظہارخیال فرمایا ہے،اُس کے لیے شکریہ۔اب اسی قسم کا ایک اور مضمون’’ قرآن میں زنا کی سزا‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں ۔میری استدعا ہے کہ آپ اِ س پر بھی اظہار خیال فرمائیں ۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو جناب کی دونوں تنقیدوں کا یک جا جواب دوں گا۔
یہاں سرسری طور پر اس قدر گزارش کرنا ضروری ہے کہ آپ نے میری اس تشریح کے بارے میں نکتہ چینی نہیں فرمائی کہ قرآن نے جو سزا بیان کی ہے،وہ زیادہ سے زیادہ سزا ہے،اور کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے۔ اور نہ اس بارے میں کچھ فرمایا کہ دنیا میں کسی جرم کی سزامجرم کو آخرت کی سزا سے محفوظ رکھتی ہے۔
نوٹ: مستفسر کے محولہ بالا مضمون کے چند ضروری اقتباسات درج ذیل ہیں ، تاکہ ان کی روشنی میں جواب کو دیکھا جاسکے۔
’’ہم اپنے سابقہ مضمون (قرآن میں چور کی سزا) میں بتلاچکے ہیں کہ سارقہ سے مراد سرقہ کے تمام مددگار لوگ ہیں ،خواہ وہ مؤنث ہوں یا مذکر، اور خود عورت اگر چور ہے تو وہ لفظ سارق میں بھی داخل ہے اور سارقہ بھی ہے۔یہاں بھی(آیت اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ میں ) وہی کیفیت ہے۔زانیہ میں فعل زنا کے تمام مددگار لوگ شامل ہیں ،خواہ وہ دلال ہوں ،دلالہ ہوں یا پیغام رساں ہوں ،یا زانیوں کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والے،یا زنا کے مفعول ہوں ،وغیرہ وغیرہ…‘‘
’’چور کی سزا کو بیان کرتے ہوئے’’سارقہ‘‘ کو سارق کے بعد لایا گیا تھا،آخر کوئی وجہ ہونی چاہیے کہ یہاں زانیہ کو زانی سے پہلے لایا گیا۔ ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ چوری کے جرم میں بڑا مجرم چور ہوتا ہے اور اُس کے مددگار بعد میں ،مگر زنا کی صورت میں زنا کے مددگار(یعنی زانیہ) زانی سے مقدم ہیں ،کیوں کہ ان کی امداد اور رضا مندی کے بغیر فعل زنا واقع ہی نہیں ہوسکتا،اس واسطے اسے پہلے لایا گیا۔‘‘
’’قرآن نے زنا کی دو سزائیں بیان کی ہیں ،ایک یہ کہ زانیوں کو۱۰۰کوڑے مارے جائیں اور دوسری یہ کہ ان کا مقاطعہ(بروے آیت اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَۃً (النور:۳) کردیا جائے۔ یعنی ان کو مومنین کی جماعت سے علیحدہ کرکے یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ توبہ کیے بغیر مومنین کے اندر نکاح کریں ‘‘… ’’قرآن میں دیگر احکام کی رو سے مومن کا مشرکہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور یہاں اس کے خلاف ہے۔سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مشرک اور مشرکہ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ، یعنی مشرکہ وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ کسی دوسرے کو حظ اُٹھانے میں شریک کرے، اور مشرک وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر عورت کوحظ حاصل کرنے میں شریک کرے۔‘‘
’’پس زانیہ اور مشرکہ کے معنی میں فرق ہے۔مشرکہ شوہر دار زانیہ ہے اور زانیہ وہ مرد یا عورت ہے جو فعل زنا میں کسی دوسرے کی مدد کرے۔اپنے آپ کو مفعول بنانے سے یا کسی دوسری طرح۔اسی طرح زانی اور مشرک میں فرق ہے۔زانی عام ہے،خواہ اس کی بیوی ہو یا نہ ہو۔اور مشرک وہ زانی ہے جس کی بیوی ہو‘‘…’’ جو عالم صاحبان ہمارے اس قول کو نہیں مانتے وہ زانی کے لیے صرف ایک ہی سزا تجویز کریں گے،یعنی سو(۱۰۰) کوڑے۔ دوسری سزا مقاطعہ ان کے ہاں کوئی سزا نہ ہوگی‘‘… ظاہر ہے کہ یہ سو کوڑے انتہائی سزا ہے۔ہم نے اپنے مضمون (قرآن میں چور کی سزا) کے اندر لکھا تھا کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا انتہائی سزا ہے،کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام کی تعزیرات کی کتاب یعنی قرآن مجید اس قاعدے کے خلاف سب مجرموں کے لیے ایک ہی سزا تجویز کرے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے،حالاں کہ ہر ایک مجرم کے حالات مختلف ہوتے ہیں جن پر جرم کی شدت اور خفت کا دارومدار ہوتا ہے‘‘…’’یہی وجہ ہے کہ خلفائے اربعہ اور خود رسول اکرم ﷺ نے زنا کی انتہائی حالتوں میں ۱۰۰کوڑوں کی سزا کو ناکافی خیال کرکے مجرمین کو رجم کی سزا دی،یعنی فتواے موت صادر کیا۔‘‘
’’ہمارے زمانے میں رجم جائز ہے یا نہ؟ کم ازکم اتنا تو معلوم ہے کہ قرآن میں رجم کا کوئی ذکر نہیں ۔اور جب حالت یہ ہے تو اُسے کیوں ایک منسوخ التلاوۃ اور قائم الحکم آیت کی بنا پر زیر بحث لایا جائے‘‘… البتہ عقل اس امر سے بغاوت کرتی ہے کہ بیٹی یا بھتیجی کے ساتھ زنا کرنے والے کو زندہ رہنے دیا جائے۔اس لیے اگر بعض مخصو ص حالتوں میں زانی کے خلاف موت کا فتویٰ صادر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ مگر وہ صرف فتواے موت ہو،فتواے رجم نہ ہو، کیوں کہ رجم آج کل کے تمدن کے خلاف ہے اور کوئی انسانی طبیعت رجم کو گوارا نہیں کرسکتی‘‘…’’ اس بات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ زنا اور چوری کے جرموں کی سزا میں ایک بنیادی فرق ہے۔وہ یہ ہے کہ چور کو توبہ کرنے کا موقع سزا سے قبل دیا گیا ہے اور زانی کو سزا کے بعد دیا۔(آیت اِلَّا الَّذِیْنَ تَاُبْوا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ… الخ) یہاں ذٰلِکَ کا اشارہ سزا کی طرف ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ زانی کسی صورت میں حد سے بری نہیں ہوسکتا مگر چو رتوبہ کرکے حد سے بری ہوسکتا ہے،بشرطیکہ قاضی قبول کرلے۔‘‘
ورثا میں کسی ایک کا قاتل کو معاف کرنا
مقتول کے ورثا میں سے کوئی ایک وارث دیت لے کر یا بغیر دیت لیے اگر اپنا حق قاتل کو معاف کردے تو کیا سزاے موت معاف ہو سکتی ہے؟ اس میں اقلیت واکثریت کا کوئی لحاظ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟مثلاً تین بیٹوں میں سے ایک نے قصاص معاف کردیا،باقی دو قصاص لینے پر مصر ہیں تو قاضی کو کیا شکل اختیا رکرنی ہوگی؟
قاتل کے اولیا کودیت ادا کرنے پر مجبور کرنا
اگر مقتول کے ورثا دیت لینے پر آمادہ ہیں لیکن قاتل اپنی عزت کے باعث مطلوبہ دیت کی ادائگی سے قطعاً معذور ہے، تو کیا قاضی اس کے ورثا کودیت ادا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے؟ اگر کرسکتا ہے تو کیا اس سے ورثا کو بے گناہ سزا نہیں مل رہی ہے؟
لا وارث قاتل کے اولیا
اگر قاتل کے ورثا ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو وہ اتنے مفلس ہیں کہ دیت ادا کرنا چاہیں بھی تو نہیں ادا کرسکتے،تو کیا ایسی صورت میں قاتل کو قصاص یا دیت کے متبادل سزا(از قسم حبس ومشقّت وغیرہ) تجویز ہوسکتی ہے یا نہیں ؟اگر نہیں تو کیا صورت اختیار کی جائے گی؟
غلط دوائی سے مریض کی موت کی ذمہ داری
ایک پنساری نے غلطی سے ایک خریدار کو غلط دوا دے دی جس سے خریدار خود بھی ہلاک ہوگیا اور دو معصوم بچے(جن کو خریدار نے وہی دوا بے ضرر سمجھ کردے دی تھی)بھی ضائع ہوئے۔یہ غلطی پنساری سے بالکل نادانستہ ہوئی۔ خون بہا اور خدا کے ہاں معافی کی اب کیاسبیل ہے؟نیز یہ کہ خوں بہا معاف کرنے کا کون مجاز ہے؟
مسلمانوں کے امتیازی حقوق کا معاملہ
اکراہ کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ لفظ قہر (coercion) سے زیادہ وسیع نہیں ہے؟اگر موجودہ زمانے کی ایک ریاست میں مسلمانوں کو ٹیکس میں رعایات ملیں یا شہریت کے زیادہ فوائد حاصل ہوں تو کیا یہ بھی غیر مسلموں کے حق میں اکراہ نہ ہو گا؟یقیناً ایک ایسا تاجر جو تھوڑے منافع پر کام کررہا ہو،اپنی روزی محفوظ رکھنے کے لیے ایسے حالات میں اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
مرتد کی سزا کا مسئلہ
اگر ایک اسلامی ریاست میں ایک مرتدواجب القتل ہے تو پھر کیا یہ دین میں جبر کا استعمال نہیں ہے؟کیونکہ قرآن کہتا ہے: لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ ({ FR 2176 }) (البقرہ:۲۵۶)
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا … (النسائ:۱۳۷ ) کی تشریح کے سلسلے میں ایک مرزائی دوست نے یہ اعتراض اُٹھایا ہے کہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اپنی کتاب’’مرتد کی سزا اسلامی قانون میں ‘‘ میں یہ لکھتے ہیں کہ جو ایک دفعہ اسلام لا کر اس سے پھر جائے،اسلام نے اُس کے قتل کا حکم دیا ہے۔لیکن قرآن میں دوسری دفعہ ایمان لانا مندرجہ بالا آیت سے ثابت ہے۔ براہ کرم یہ اشکال رفع فرمائیں ۔
اقامتِ حدود میں احوال کا لحاظ
تفہیمات حصہ دوم صفحہ ۲۹۸۔ اقامتِ حدود میں وقت کے حالات اور ملزم کے حالات کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔زمانۂ جنگ میں حد موقوف رکھی جاتی ہے۔قحط کے زمانے میں چور کے ہاتھ نہیں کاٹے جاتے۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل بیان فرماویں ۔ حضرت سعدؓ کا واقعہ حدود اﷲ کو توڑنے چھوڑنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ انھوں نے کتاب وسنت سے کوئی مستحکم دلیل بیان نہیں فرمائی ہے۔({ FR 1844 })اسی طرح حضرت عمر ؓ کا حضرت حاطب ؓکے غلاموں کو چھوڑ دینا اور حاطبؓ سے عوض دلوانا بھی نوعیت جرم کی بدلی ہوئی کیفیت پر دلالت کرتا ہے،ورنہ مجرموں کو چھوڑ کر غیر مجرم انسان سے عوض دلوانا کیا معنی؟ یقیناً حضرت عمرؓ کے ذہن میں جرم کی نوعیت کچھ سرقہ کی سی نہ ہوگی بلکہ غصب کی سی ہوگی جس کی ضمانت ان کے مولیٰ سے لی گئی۔مہربانی فرما کر اس مسئلے میں کتاب وسنت کے مستحکم دلائل بیان فرما کر مشکور کریں ۔