جِنّات کے لیے شرعی احکام کی نوعیت

اس سورہ(الاحقاف) سے پتا چلتا ہے کہ جِن اتفاقی طور پر ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے طور پر اپنے ساتھیوں کو اسلام کی دعوت دی… اگر حضورﷺ انسانوں کی طرح جِنّوں کے لیے بھی مبعوث تھے تو آپ نے جِنّوں کو خود دعوت کیوں نہ دی؟ ان کی دینی تربیت کے لیے کیا اہتمام اور کیا انتظام فرمایا؟ اور اُن کے لیے شرعی احکام کی نوعیت کیا ہے؟ قرآن مجید کی معاشرتی تعلیمات جنوں کے لیے بھی اسی طرح سے واجب ہیں جیسے انسانوں کے لیے، یا ان کے احکام مختلف ہیں ؟

سورة الاحزاب،آیت:۳۳ سےقادیانیوں کا غلط استدلال

تفہیم القرآن‘ سورۂ آل عمران صفحہ۲۶۸، آیت وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ… (آل عمران:۸۱) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ نمبر۶۹ یوں درج کیا ہے کہ’’یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ حضرت محمدؐ سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتارہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی اُمت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔لیکن نہ قرآن میں ،نہ حدیث میں ،کہیں بھی اس امر کا پتا نہیں چلتا کہ حضرت محمدؐ سے ایسا عہد لیا گیا ہو،یا آپ ؐنے اپنی اُمت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو۔‘‘
اس عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد دل میں یہ بات آئی کہ بے شک محمدﷺ نے تو نہیں فرمایا،لیکن خود قرآن مجید میں سورۂ الاحزاب میں ایک میثاق کا ذکر یوں آتا ہے:
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَہُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ … (الاحزاب:۷)
’’اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑسے بھی۔‘‘
یہاں لفظ ’’مِنْکَ‘‘ کے ذریعے نبی ﷺسے خطاب ہے۔میثاق وہی ہے جس کا ذکر سورۂ آل عمران میں ہوچکا ہے۔ ہر دو سورتوں یعنی آل عمران اور الاحزاب کی مذکورۂ بالا آیات میں میثاق کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی میثاق جو دوسرے انبیا سے لیا گیا تھا، محمد رسول اﷲ ﷺ سے بھی لیا گیا ہے۔
دراصل یہ سوال قادیانیوں کی ایک کتاب پڑھنے سے پیدا ہوا ہے جس میں ان دونوں سورتوں کی درج بالا آیات کی تفسیر ایک دوسرے کی مدد سے کی گئی ہے اور لفظ ’’مِنْکَ‘‘ پر بڑی بحث درج ہے۔

حدیث لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ ابْنُ النَّبیِ لَکَانَ صِدِّیْقاً نَبِیّاًسے قادیانیوں کا غلط استدلال

اسی طرح قادیانی حدیث لَوْعَاشَ اِبْراھِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا({ FR 1821 }) ’’اگر رسول اﷲؐ کے صاحب زادے ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے،‘‘ سے بھی امکان نبوت کے حق میں استدلال کرتے ہیں ۔ براہِ کرم ان دلائل کی حقیقت واضح فرمائیں ۔

کیامرزائی یا قادیانی کہنا تنابز بالا لقاب ہے؟

آپ کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ اقامت دین کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ اور آپ کی جماعت ہمیشہ جماعت احمدیہ کو’’مرزائی جماعت‘‘یا’’قادیانی جماعت‘‘ کے نام سے موسوم کرتی ہے۔حالاں کہ یہ امر دیانت کے بالکل خلاف ہے کہ کسی کو ایسا نام دیا جائے جو اس نے اپنے لیے نہیں رکھا۔
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنی جماعت کا نام’’جماعت احمدیہ‘‘ رکھا ہے اور ان کی جماعت کے افراد بھی اپنے آپ کو’’احمدی‘‘ کہتے ہیں ۔مگر ان کے مخالفین تعصب کی وجہ سے انھیں ’’مرزائی‘‘یا’’قادیانی‘‘ پکارتے ہیں ۔کیا دین اسلام میں یہ جائز ہے؟اگریہ جائز ہے تو کیا آپ یہ پسند فرمائیں گے کہ آپ کی جماعت کے افراد کو’’مودودیے‘‘ کہا جائے۔اگر آپ یہ پسند نہیں فرماتے تو پھر آپ اور آپ کی جماعت دوسرو ں کے لیے ایسا کیوں پسند کرتی ہے؟
واضح رہے کہ آپ نے ترجمان القرآن مارچ، اپریل، مئی ۱۹۵۱ کے صفحہ نمبر۱۴۶پر تحریر فرمایا ہے:
’’میں اپنی حد تک یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے میں نہ تأمل ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا،بشرطیکہ میری غلطی دلائل سے ثابت کی جائے نہ کہ سب وشتم سے۔‘‘

لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے معنی اور قادیانیوں کا معاملہ

قرآن کہتا ہے: لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ( البقرہ:۲۵۶) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘
کیا ایران میں بہائیوں کا استیصال اس آیت کے خلاف نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیوں ؟ کیا پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ہنگامے اس آیت کے خلاف نہ تھے؟ اگر نہ تھے تو کیوں ؟

مسئلہ تقدیر

مشکٰوۃ باب الایمان بالقدر میں ذیل کی متفق علیہ حدیث وارد ہے:
إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ… ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ المَلَكُ فَيُؤْذَنُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَكْتُبُ: رِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَعَمَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ…({ FR 2001 })
’’یقیناً تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اُس کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے… پھر اﷲتعالیٰ اُس کی طرف ایک فرشتے کو چار باتیں دے کر بھیجتا ہے۔چنانچہ وہ اس کے عمل، عمر،رزق اور شقاوت وسعادت کے بارے میں نوشتہ تیار کردیتا ہے اور پھر اس میں روح پھونک دیتا ہے۔‘‘
اب سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان سارے معاملات کا فیصلہ ماں کے پیٹ میں ہی ہوجاتا ہے تو پھر آزادی عمل اور ذمہ داریِ عمل کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟عام طور پر ایسی ہی احادیث سن لینے کے بعد لوگ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہتے ہیں ۔

مسئلۂ تقدیر اور انسان کے ارادۂ عمل کی آزادی

مجھے آپ کی تصنیف ’’مسئلۂ جبر و قدر‘‘ کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ آپ نے نہایت ہی علمی انداز میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جبر وقدر کے جو مبحث ملتے ہیں ، ان میں قطعاً کوئی تناقض نہیں ۔ اس معاملے میں میری تو تشفی ہوچکی ہے مگر ذہن میں پھر بھی دو سوال ضرور اُبھرتے ہیں ۔ایک یہ کہ کیا انسان کی تقدیر پہلے سے طے ہے اور مستقبل میں جو واقعات وحوادث اسے پیش آنے والے ہیں ،وہ ازل سے ہی مقرر اور معین ہیں اور اب ان کے چہرے سے صرف نقاب اٹھانا باقی رہ گیا ہے؟اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتِ حال انسان کے ارادۂ عمل کی آزادی کے ساتھ کیسے میل کھا سکتی ہے؟

ایمان اور اسلام کے لحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں

ایک شخص غیر اﷲ مثلاً بادشاہ یا حکومت باطلہ کی اطاعت کرتا ہے اور اعتقاداً بھی اسی کو حق سمجھتا ہے۔ دوسرا شخص اعتقاداً تو اس کی بندگی نہیں کرتا لیکن عملاً اس کے احکام کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے لیے مجبوری کا عذر پیش کرتا ہے۔ کیا ان دونوں کے عمل میں کوئی تفریق کی جا سکتی ہے؟آپ کی تفسیرالٰہ وربّ کے لحاظ سے تو دونوں ایک ہی درجے میں ہوئے، حالاں کہ دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔

ایمان اور عمل کا تعلق

ائمۂ سلف میں اس مسئلے کے بارے میں بہت اختلاف رہا ہے کہ عمل صالح ایمان کا جز ہے یانہیں ۔میں نے قرآن وحدیث وسیرت کا بھی مطالعہ کیا ہے،اپنی حد تک ائمہ کے اقوال واستدلال کو بھی دیکھا ہے اور اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے بھی رجوع کیا ہے، لیکن اس سوال کا شافی جواب حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں ۔مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے محض اختلافات کو ہوا دینے کے لیے اس مسئلے کو چھیڑا ہے، لیکن میرا مقصد سواے تحقیق واطمینان کے کچھ نہیں ہے۔