غیر اسلامی قانون نافذ کرنے والے مسلمانوں کا حکم

ایسے مسلمان جو سرکاری دفاتر میں ملازم ہیں یا گورنمنٹ کی عدالتوں میں جج اور مجسٹریٹ ہیں اور ان کے ہاتھوں قانو ن ہند کا نفاذ ہوتا ہے، یا مجالس قانون سازکے رکن ہیں اور قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں ،یہ لوگ آپ کے نقطۂ نظر سے دائرۂ اسلام میں داخل ہیں یا نہیں ؟ اور آپ حضرات کے نزدیک شرعی نقطۂ نظر سے ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟

’’گناہ گار مومن ‘‘اور ’’نیکوکار کافر‘‘ کا فرق

آج کل ایف ایس سی کی ایک طالبہ نہایت ہی ذہین مسیحی لڑکی میرے پاس انگریزی پڑھنے آتی ہے۔ وہ تقریباً روزانہ مجھ سے مذہبی امور پر تبادلہ خیالات کرتی ہے۔ میں بھی اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسے دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرنے کی کوشش کرتا ہوں بحمداللّٰہ کہ میں نے دین اسلام کے بارے میں اس کی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے۔
لیکن ایک دن اس نے میرے سامنے ایک سوال پیش کیا جس کا جواب مجھے نہ سوجھ سکا۔ ازاں بعد میں نے آپ کی تصانیف سے بھی رجوع کیا مگر تاحال کوئی شافی اشارات وہاں سے نہیں مل سکے۔
میری مسیحی شاگرد کہنے لگی کہ میں نے میٹرک میں اسلامیات کے کورس میں ایک حدیث پڑھی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان چاہے کتنا ہی بڑا گناہ گار ہو وہ کچھ عرصہ دوزخ میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخرکار ضرور جنت میں چلا جائے گا مگر کافر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے۔ پھر وہ کہنے لگی آپ ہمیں بھی کافر ہی سمجھتے ہیں ۔ کوئی عیسائی خواہ وہ کتنا ہی نیکوکار ہو مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دوزخ ہی میں جائے گا، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

مسلم سوسائٹی میں منافقین

اسلام کے خلاف دو طاقتیں ابتدا ہی سے برسر پیکار چلی آرہی ہیں ۔ ایک کفر اور دوسری نفاق۔ مگر کفر کی نسبت منافق زیادہ خطرناک دشمن ثابت ہوا ہے۔ کیوں کہ وہ مارِآستین ہے جو ماتھے پر اُخوت اور اسلام دوستی کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اگرچہ کافر اور منافق دونوں ہی بالآخر جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں ، لیکن منافق کی سزا کچھ زیادہ ہی’’بامشقت‘‘ بتائی گئی ہے ’’بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘({ FR 2170 }) (النساء:۱۴۵) اسی گروہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے یوں دوٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ’’اے پیغمبر! ان منافقوں کے حق میں تم خواہ دعاے مغفرت کرو یا نہ کرو(برابر ہے کیوں کہ) چاہے تم ستر مرتبہ ہی مغفرت کے لیے دعا کیوں نہ کرو، تب بھی اﷲ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘({ FR 2171 }) (التوبہ:۸۰) کم وبیش ساٹھ مختلف علامات اور امتیازی نشانیاں منافقین کی اﷲ نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہیں ،جن کی روشنی میں ہم پاکستان کے اندر بسنے والی اس قوم کو جب دیکھتے ہیں جو مسلمان کہلاتی ہے تو اکثریت بلامبالغہ منافقین کی نظر آتی ہےــــــــگناہ گار مسلمان اس گروہ منافقین میں شامل نہیں ــــــــ مگر گناہ گار مسلمان وہ ہے جس سے برائی کا فعل باقتضائے بشریت جب کبھی سرزد ہوجاتا ہے تو فوراً ہی خدا اور قیامت کا خیال اسے آجاتا ہے۔سچے دل سے توبہ اور پشیمانی کا اظہار کرتا ہے اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔منافق اس کے خلاف اپنے برے کاموں پر واقعی نادم ہونے کے بجاے دانستہ کیے جاتا ہے۔
آپ کی نگاہ اور مطالعہ زیادہ وسیع ہے،براہ کرم آپ اپنی راے بیان فرمایئے کہ موجودہ مدعیان اسلام میں منافقین اور گناہ گار اور متقی مسلمانوں کا تناسب اندازاًکیا ہے؟
دوسرا سوال گروہ منافقین کے ساتھ مسلمانوں کے طرز عمل کا ہے۔قرآن کریم کی رو سے یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں : ’’اور یہ منافق قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھاری جماعت میں ہیں ۔حالاں کہ وہ تم میں سے نہیں ۔‘‘({ FR 2582 })(التوبہ:۵۶) صرف یہی نہیں کہ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں ،بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے دشمن ہیں :’’یہ منافق تمھارے دشمن ہیں ،ان سے خبر دار رہو۔‘‘({ FR 2172 }) (المنافقون:۴)
چوں کہ یہ دشمن ہیں لہٰذا حکم ہوتا ہے کہ ان دشمنان دین سے کامل علیحدگی اختیار کرلو۔ان منافقوں میں سے اپنے ساتھی اور دوست نہ بنائو: ’’اور ان میں سے کسی کو نہ اپنا دوست سمجھونہ مدد گار۔‘‘({ FR 2173 })(النساء:۸۹)
اس بائیکاٹ میں یقیناً یہ بات بھی شامل ہے کہ منافقوں سے رشتے ناتے نہ کیے جائیں ۔ علیحدگی کی ایک اور صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’اے نبی!اﷲ سے ڈرو اور ان کافروں اور منافقوں کی کسی بات کی پیروی نہ کرو۔‘‘({ FR 2174 }) (الاحزاب:۱) یعنی نہ تو نماز میں منافقوں کی پیروی کی جائے اور نہ ہی سیاسی قیادت قبول کی جائے وغیرہ۔ بائیکاٹ کا اظہار ایک اور طریقے سے بھی کرنا ضروری ہے۔ ’’اور ان منافقوں میں سے اگر کوئی مرجائے تو کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھو،اور نہ ہی اس کی قبر پر دعاے مغفرت کے لیے کھڑے ہو۔‘‘({ FR 2175 })( التوبہ:۸۴)
بحیثیت ایک مسلمان کے خود آپ کا طرز عمل اس علیحدگی کے بارے میں کیا ہے؟کیا مسلمانوں کو (جو اقلیت میں ہیں )منافقوں سے(جن کی اکثریت ہے) قطع تعلق کرلینا چاہیے یا کچھ اتمام حجت کی گنجائش ہے؟

سورة الاعراف ،آیت ۳۵ سے قادیانیوں کا غلط استدلال

قادیانی حضرات قرآن کی بعض آیات اور بعض احادیث سے ختم نبوت کے خلاف دلائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مثلاً وہ سورۂ الاعراف کی آیت يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ (الاعراف: ۳۵ ) کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے نزول اور محمدﷺ کی بعثت کے بعد اس آیت کا خطاب اُمت محمدیہ سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہاں بنی آدم سے مراد یہی امت ہے اور اسی امت کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے کہ اگر ’’کبھی تمھارے پاس تم میں سے رسول آئیں ۔‘‘ اس سے قادیانیوں کے بقو ل نہ صرف امتی انبیا بلکہ امتی رسولوں کا آنا ثابت ہوتا ہے۔

سورة النساء، آیت ۶۹ سے قادیانیوں کا غلط استدلال

قادیانی مبلغ اپنا انتہائی زور اجراے نبوت کے ثبوت پر صرف کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں وہ مندرجہ ذیل آیت خصوصی طور پر پیش کرتے ہیں اور انھی پر اپنے دعوے کی بنیاد رکھتے ہیں :
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا (النسائ: ۶۹)
’’ اور جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اﷲ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں ۔‘‘
اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان آیات میں بالترتیب چار چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے:انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ ان کی دانست میں ان میں سے تین درجے یعنی صدیقین، شہدا اورصالحین تو امت محمدیہ کومل چکے ہیں ، لیکن چوتھا درجہ نبی ہونا باقی تھا،اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو ملا ہے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ اگرمعیت کا مطلب یہ ہے کہ اُمت محمدیہ کے لوگ قیامت کے دن صرف مذکورہ گروہ کی رفاقت میں ہوں گے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدیہ میں کوئی صالح، شہید اور صدیق ہے ہی نہیں ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جب آیت میں چار مراتب (گروہوں ) کا ذکر کیا گیا ہے تو پھر گروہ انبیا کے امت میں موجود ہونے کو کس دلیل کی بِنا پر مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔
آپ سے استدعا ہے کہ اس مسئلے پر اپنے رسالے میں مدلل بحث فرمائیں ، تاکہ یہ افادۂ عام کا موجب ہو۔

مرزا صاحب کا دعواے نبوت:اس کی سزا میں تاخیر کی وجہ

’’ترجمان القرآن‘‘جنوری،فروری۱۹۵۱ء کے صفحہ ۳۲۶ پر آپ نے لکھا ہے کہ’’میرا تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ کو فروغ نہیں دیتا۔میرا ہمیشہ سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ…جن لوگوں کو میں صداقت ودیانت سے بے پروا اور خوف خدا سے خالی پاتا ہوں ،ان کی باتوں کا کبھی جواب نہیں دیتا…خدا ہی ان سے بدلہ لے سکتا ہے …اور ان کا پردہ ان شاء اﷲ دنیا ہی میں فاش ہوگا۔‘‘
میں عرض کردوں کہ میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے کام سے دل چسپی ہے۔میر ے مندرجۂ ذیل استفسارات اسی ضمن میں ہیں :
۱۔ یہ صرف آپ ہی کا تجربہ نہیں ،بلکہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’اﷲ تعالیٰ کاذبوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘اور’’اﷲ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔‘‘اور پھر اس قسم کے جھوٹوں پر کہ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ (الحاقہ:۴۴ ) ’’اور اگر (نبیؐ) نے خود گڑھ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی‘‘ ان کی سزا تو فوری گرفت اور وصال جہنم ہے لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِo ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ (الحاقہ:۴۵-۴۶ ) ’’تو ہم اس کا دائیاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے۔‘‘اس صورت میں اگر مرزا صاحب جھوٹے تھے تو کیا وجہ ہے کہ
(ا) ابھی تک اﷲ تعالیٰ نے ان پر کوئی گرفت نہیں کی؟
(ب) ان کی جماعت بڑھ رہی ہے اور مرزا صاحب کے مشن کو، جو مسلمانوں کے نزدیک گمراہ کن ہے،تقویت پہنچ رہی ہے، اور اب تو اس جماعت کی جڑیں بیرون ممالک میں مضبوط ہوگئی ہیں ۔
(ج)مرزا صاحب کے پیغام کو ساٹھ سال ہوگئے ہیں ۔ہم کب تک خدائی فیصلے کا انتظار کریں ؟فی الحال تو وہ ترقی کررہے ہیں ۔
(د) جو جماعتیں یا افراد اس گروہ کی مخالفت کررہے ہیں ،وہ کیوں اسے ترک نہیں کردیتے اور معاملہ خدا پر نہیں چھوڑ دیتے؟
۲۔صفحہ۲۴۲ پر آپ کی جماعت کے ایک جرمنی نژاد ہم درد نے برلن میں جماعت احمدیہ کے ساتھ تبلیغ اسلام میں تعاون کا ذکر کیا ہے۔اگر آپ بھی ان کی تبلیغ اسلام کو صحیح سمجھتے ہیں تو پاکستان میں ان کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کرتے؟

ختمِ نبوت:خاتم کے معنی

میرے ایک دوست ہیں جو مجھ سے بحث کیا کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے ان کے ایک رشتہ دار جو مرزائی ہیں ان کو اپنی جماعت کی دعوت دیتے ہیں ، مگر وہ میرے دوست ان کے سوال کا جواب پوری طرح نہیں دے سکتے۔انھوں نے مجھ سے ذکر کیا۔ میں خود تو جواب نہ دے سکا، البتہ میں نے ایک صاحب علم سے اس کا جواب پوچھا۔ مگر کوئی ایسا جواب نہ ملا جس سے کہ میری اپنی ہی تسلی ہو جاتی۔ اس لیے اب آپ سے پوچھتا ہوں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مرزائی حضرات لفظ’’خاتم‘‘ کے معنی نفی کمال کے لیتے ہیں ،نفی جنس کے نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ خاتم کا لفظ کہیں بھی نفی جنس کے ساتھ استعمال نہیں ہوا۔ اگرہوا ہو تو مثال کے طور پر بتایا جائے۔ ان کاچیلنج ہے کہ جو شخص عربی لغت میں خاتم کے معنی نفی جنس کے دکھا دے،اس کو انعام ملے گا۔نفی کمال کی مثالیں وہ یہ دیتے ہیں کہ مثلاً کسی کو خاتم الاولیا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولایت اس پر ختم ہوگئی،بلکہ حقیقی مطلب یہ ہوتا ہے کہ ولایت کا کمال اس پر ختم ہوا۔اقبال کے اس فقرے کو بھی وہ نظیر میں پیش کرتے ہیں : ع
آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ؔ ہے
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاں آباد میں اس کے بعد کوئی شاعرپیدانہیں ہوا،بلکہ یہ ہے کہ وہ جہاں آباد کا آخری باکمال شاعر تھا۔اسی قاعدے پر وہ خاتم النّبیین کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ نبی کریم ﷺپر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے نہ یہ کہ خود نبوت ہی ختم ہوگئی۔

ختم نُبوَّت: نوعیت اور اہمیت

اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہ ہے کہ محمدﷺ اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے۔ تاہم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور قادیانی جماعت کی بعض باتیں مجھے اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔
مثلاًمرزا صاحب کا چہرہ میر ی نظرمیں معصوم اور بچوں جیسا دکھائی دیتا ہے۔کیا ایک جھوٹے نبی اور چالاک آدمی کا چہرہ ایسا ہوسکتا ہے؟ان کی پیشین گوئیاں بھی سواے آسمانی نکاح اور اسی طرح کی چند ایک خبروں کے بڑی حد تک پوری ہوئیں ۔ ان کی جماعت بھی روز بروز ترقی پر ہے اور اس میں اپنے مزعومات کے لیے بڑا جوش اور ایثارپایا جاتا ہے۔
یہ ساری چیزیں خلجان میں ڈالتی ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اطمینان قلب کی خاطر اس مسئلے کی ایسی وضاحت کردیں جس سے تردّد اور پریشانی رفع ہوجائے اور حق وباطل کے مابین واضح امتیاز قائم ہوجائے ۔