اعتراضات میں ایک دل چسپ ترین اعتراض یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہی مودودی صاحب سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے نام پر اہلِ حدیث کو حنفی بنا کے رہیں گے۔چنانچہ یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔یعنی پہلے تو اس جماعت میں آنے والے سے کہا جاتا ہے کہ تمھارا فقہی مسلک جماعت میں آنے کے بعد بھی برقرار رہے گا، مگر جماعت میں آنے کے بعد ایسے طریقوں سے کام لیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو خود کوئی احساس تک نہیں ہوتا اور اس کا مسلک سراسر بدل جاتا ہے۔

جماعت اسلامی کی مخالفت: ایک مصالحانہ تجویز

پاکستان دستور سازی کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔پاکستان کا ایک خاص طبقہ جماعت اسلامی سے گلوخلاصی حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی اور علماے کرام کی باہمی چپقلش افسوس ناک ہے۔ جماعت اسلامی جس کے بنیادی مقاصد میں دستور اسلامی کا عنوان ابھرا ہوا رکھا گیا ہے، بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کرکے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔کیا اس معاملے کو اس طرح نہیں سلجھایا جاسکتا کہ چند نام ور علما کو (اس مقام پر مکتوب نگار نے پانچ بزرگوں کے نام دیے ہیں ،ہم نے مصلحتاً ناموں کی اس فہرست کو حذف کرکے چند نام ورعلما کے الفاظ لکھ دیے ہیں ) ثالث تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی فریق ثانی کو دعوت دے کہ وہ جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان حضرات کی خدمت میں پیش کردے۔ ان علماے کرام کی غیر جانب داری ،علم وتقویٰ اور پرہیز گاری شک وشبہہ سے بالا ہے ( کمال یہ ہے کہ ان پانچ غیر جانب دار حضرات میں سے ایک گزشتہ انتخابات پنجاب میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں سرگرم رہ چکے ہیں ، اور دو بزرگ ان دنوں ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں )۔اگر کوئی عبارت قابل اعتراض نہ ہو تو مولانا مودودی کی عزت میں یقیناً اضافہ ہوگا۔اور اگر علماے کرام ان عبارتوں کو قابل اعتراض قرار دیں تو مولانا مودودی صاحب ان سے دست برداری کا اعلان فرما دیں ۔ یہ تمام مراحل اس صورت میں طے ہوسکتے ہیں کہ اخلاص اور آخرت مطلوب ہو۔
نوٹ: اس تجویز کی نقول اخبار تسنیم، نواے وقت اور نواے پاکستان کو ارسال کردی گئی ہیں ۔

غیرمعقول الزامات، جواب نہ دینے کی وجہ

جماعتِ اسلامی کے تحت قائم شدہ حلقۂ ہم درداں تو ہمارے علاقے میں پہلے سے تھا، لیکن باقاعدہ جماعتی کام حال ہی میں شروع ہوا ہے۔عوام کا رُجحان جماعت کی طرف کثرت کے ساتھ دیکھ کر علماے دیو بند، سہارن پور،دہلی اور تھانہ بھون نے جو فتاویٰ شائع کیے ہیں ،وہ ارسال خدمت ہیں ، اور علماے دیو بند کا ایک فتویٰ جو کہ ابھی زیر کتابت ہے،مفصل کتابی شکل میں آنے والا ہے،آنے پر ارسال کردیا جائے گا۔
ان فتووں کے جواب میں سکوت مناسب نہیں ۔غور کرکے جواب دیجیے۔ اگرکوئی اور وجوہ آپ کو ان کے فتووں کے بارے میں معلوم ہوں تو وہ بھی تحریر کریں کہ اس قدر شدت کے ساتھ یہ طوفان کیوں اُٹھ رہا ہے؟

اقامتِ دین کے لیے اُمید اوراعتماد

رسول اﷲ ﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں جن جلیل القدر صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئیں ،ان کے بارے میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ نوع انسانیت کے گل سرسبد تھے۔لیکن اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلافت راشدہ کانظام جلد درہم برہم ہوگیا اور جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے حادثات رونما ہوئے، جن کا اسلامی تحریک کے ارتقا پر ناخوش گوار اثر پڑا۔ نبی کریم ﷺ کے اتنے قریبی زمانے میں اور عہد نبوی میں تربیت یافتہ صحابہ کی موجودگی میں اگر مسلم سوسائٹی میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے تو آج ہم لوگ جو ان سلف صالحین کی بلندیوں کے تصور سے بھی عاجز ہیں ، کس چیز پر فخر کرسکتے ہیں اور کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم ایک مکمل اسلامی ریاست قائم کرسکیں گے؟

ایک عرصے سے ایک اُلجھن میں مبتلا ہوں ۔ براہِ کرم اس سلسلے میں راہ نمائی فرمائیں ۔ الجھن یہ ہے کہ عہد نبویؐ و خلافت راشدہ کو چھوڑ کر آج کی تاریخ تک مسلمانوں کا وہ گروہ ہمیشہ ناکام کیوں ہوتا چلا آ رہا ہے جس نے دین و ایمان کے تقاضے ٹھیک ٹھیک پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناکامی کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا سبب زیادہ تر اپنے ہی دینی بھائی بنتے رہے اور آج بھی بنے ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ’’دین‘‘ جو دنیاوی زندگی کو درست کرنے کے لیے نازل ہوا ہے، جس کا سارے کا سارا ضابطہ دنیوی زندگی میں عمل کرنے کے لیے ہے، جسے غالب کرنے کے لیے کئی خدا کے بندے اپنی زندگیاں ختم اور کئی وقف کر چکے ہیں ، غالب کیوں نہ آسکا؟ اور دنیا کی غالب آبادی ’’دین اسلام‘‘ کی برکتوں سے عام طور پر کیوں محروم رہی ہے؟ خلق خدا کی عظیم الشان اکثریت چند مٹھی بھر زبردستوں کے ظلم و ستم کیوں سہتی چلی آ رہی ہے؟ معاشی بے انصافی، تنگ دستی اور اذیتوں کی درد ناک صورتوں سے کیوں دو چار ہے؟ اور امن و سلامتی قائم کرنے والا دین حق اور اس کے نام لیوا کمزوروں ، بے بسوں ، مجبوروں اور معذوروں کا سہارا بننے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟

مذہب کا پروگرام اگر انسانی فطرت کے لیے کشش رکھتا تھا تو متقی لوگوں نے کسی بھی ملک وقوم میں بہتر سوسائٹی بنانے میں کیوں کام یابی حاصل نہیں کی۔اگر انسانیت کی پوری تاریخ میں بھی مذہب کام یاب نہیں ہوسکا تو آج کیوں کر اس سے امن وترقی کی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں ۔ یہ کہہ دینا کہ انسانی فطرت ہی میں خرابی مضمر تھی، مفید نہیں ہو سکتا۔ مذاہب حق کو زندہ کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے کام کرتے رہے مگر نتیجہ تھوڑے تھوڑے وقفے کو چھوڑکر ہمیشہ الٹا ہی نکلا اور تاریخ کے سیلاب کا رخ نہ بدلا،یا بالفاظ دیگر شیطان کی طاقت شکست نہ کھا سکی؟