چار حرام چیزوں کی حُرمت کا مطلب
میرے پہلے خط کے جواب میں جناب فرماتے ہیں کہ سورئہ الانعام کی آیت کا مطلب دراصل یہ ہے کہ جاہلیت میں اہل عرب نے جن چیزوں کو حرام کر رکھا تھا ’’حرام وہ نہیں ہیں ‘‘ بلکہ حرام یہ چیزیں ہیں جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں ۔ لیکن قرآن مجید صرف اتنا ہی نہیں فرماتا بلکہ اس کی بھی تصریح کرتا ہے کہ جہاں تک نبی ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کا تعلق ہے ان چیزوں کے سوا اور کوئی چیز اس میں حرام نہیں کی گئی۔ قرآن کریم کے الفاظ بالکل صاف ہیں اور ان میں کوئی گنجلک نہیں ۔ پھر آپ کیوں فرماتے ہیں کہ ’’اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان چاروں چیزوں کے سوا کسی کھانے والے کے لیے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے؟‘‘ مہربانی فرما کر اس کی وضاحت فرما دیں ۔
تفہیم القرآن پہلے بھی پڑھ چکا تھا اور اب آپ کے فرمانے پر سورئہ النساء اور سورئہ النور میں جناب کے نوٹوں کا دوبارہ مطالعہ کیا۔ لیکن اگر آپ سوئے ادب نہ سمجھیں تو عرض کروں کہ دلیل دل کو نہیں لگی۔ عام طور پر موازنہ مماثل اشیا میں ہوتا ہے یعنی ایک شادی شدہ لونڈی کو اگر محصنہ کی سزا کا کوئی حصہ ملتا ہے تو محصنہ بھی شادی شدہ ہونی چاہیے ورنہ قرآن مجید کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ یہاں شادی شدہ لونڈی کا شادی شدہ محصنہ سے مقابلہ نہیں کیا جا رہا بلکہ غیر شادی شدہ سے کیا جا رہا ہے۔ کیا آپ فرما سکتے ہیں کہ قرآن مجید یا رسول اللّٰہ ﷺ نے اس کی صراحت فرمائی ہے؟ سورئہ النور میں آپ کے نوٹ میں صفحہ ۳۳۹ پر لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے ایک عورت کو کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اسے رجم کیا اور فرمایا کہ ہم نے کتاب اللّٰہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللّٰہ کے مطابق سنگ سار کرتے ہیں ۔ یعنی حضرت علیؓ کے نزدیک سورئہ النور والی سزا غیر شادی شدہ محصنات تک محدود نہ تھی۔ شاید اسی وجہ سے امام احمد، دائود ظاہری اور اسحاق بن راہویہ نے بھی پہلے سو درے لگانے اور بعد میں سنگ سار کرنے کی سزا تجویز کی ہے۔ (ایضاً صفحہ ۳۳۷) اگر یہ استنباط درست ہے تو اس بات کے حق میں کافی شہادت موجود ہے کہ زنا کی سو دُرّے کی سزا کا اطلاق شادی شدہ محصنات پر بھی ہوتا ہے۔ پھر ان کو رجم کی سزا کیوں دی جاتی ہے؟