خلع کے بعد سابق شوہر سے دوبارہ نکاح

:میرا اپنے شوہر سے تنازعہ ہو گیا تھا، جس کے بعد میں نے خلع لے لی تھی۔ کئی برس ہم علیٰحدہ رہے۔ اب وہ پھر مجھ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں ۔ جن باتوں کی وجہ سے تنازعہ ہوا تھا ان سے وہ تائب ہو گئے ہیں اور آئندہ بھی درست رویہّ اختیار کرنے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ کیا ان سے میرا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟

کیا ’حلالہ ‘ جائز ہے؟

یہاں ایک صاحب کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ہاں اگر وہ ایک رات کے لیے اسے کسی دوسرے مرد کے پاس بھیج دے تو دوبارہ وہ اس کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔اس طریقہ کو ’حلالہ ‘ کہاجاتا ہے۔یہ طریقہ غیرشریفانہ اورانتہائی گھنائونا معلوم ہوتا ہے۔مجھ سے کوئی معقول جواب نہیں بن پڑا۔ براہ کرم اس کا ایسا جواب دیں  جو شرعی نقطۂ نظر سے درست ہواور عقلی طورپر بھی مطمئن کرنے والا ہو۔

ٹخنے سے نیچے کپڑا ہونے کی ممانعت

مردوں کے لیے ٹخنے سے نیچے لنگی،پاجامہ،پینٹ یا کرتا وغیرہ پہننا جائز ہے یا ناجائز ؟ کیا حکم ہے؟ بعض روایات میں ’تکبر‘ کی شرط ہے، اس کی بھی وضاحت فرمادیں ۔ آج کل اکثر لوگ ٹخنے سے نیچے کپڑاپہنتے ہیں اور کہتے ہیں  کہ میرے دل میں  تکبر نہیں  ہے۔کیا ان کا یہ کہنا کافی ہے؟ کیا ایسا کرنے سے حدیث رسول ﷺ کی مخالفت نہ ہوگی؟

وقت ضرورت ڈاڑھی چھوٹی کرالینا یا منڈوالینا جائز ہے

کورونا وائرس کے علاج معالجہ میں جو ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ کے لوگ لگے ہوئے ہیں ان کے تحفظ کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ ان کا پورا جسم ڈھکا ہوا ہوتا ہے اور وہ چہرے پر ماسک لگاتے ہیں ۔ڈاڑھی لمبی ہو تو اس پر ماسک ٹھیک سے فٹ نہیں ہوتا، دوسرے اس سے انفیکشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس بنا پر ڈاڑھی والے ڈاکٹروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ شیو کرالیں ۔
ایک ڈاکٹر جو دینی جذبے سے ڈاڑھی رکھے ہوئے ہے، ان حالات میں کیا کرے؟ کیا وہ شیو کرالے، یا اس موقع پر اپنی خدمات سے معذرت کرلے؟

کیا مقیم شخص موسم حج میں عمرہ نہیں کرسکتا؟

مقیم شخص کے لیے حج تمتع‘ کے عنوان سے مذکورہ بالا جواب پر اشکال کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ہے:
’’سورہ البقرۃکی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوں کو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میں کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ اجازت ان کے لیے نہیں ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب ہوتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہیے۔جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے : وَاتَّقُواللہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔ اگر یہ بات نہ ہوتو حج وعمرہ کے ذیل میں ’ شدیدالعقاب‘ پرآیت ختم ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔
مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخر رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف باہر کے افراد ہی کریں گے۔
اگر کوئی مقامی فرد ایام حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا۔
میقات سے باہر رہنے والا چاہے تو قِران کرے یا تمتع یا افراد حج ، لیکن میقات کےاندر رہنےوالا صرف حج افراد ہی کرسکتا ہے۔‘‘

طواف ِ زیارت ،احرام کے ساتھ یا اس کے بغیر؟

مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب’خطبات‘ کے مضمون ’حج کے فائدے‘ میں مناسکِ حج کی تربیت بیان کی ہے۔انھوں نے لکھاہے
’’دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے ۔(وہاں  بڑے جمرہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ) پھر اسی جگہ قربانی کی جاتی ہے۔پھر وہاں سے کعبہ کارخ کیاجاتا ہے۔ طواف اور دورکعتوں سے فارغ ہوکر احرام کھل جاتاہے۔ جو کچھ حرام کیا گیا تھا وہ اب پھر حلال ہوجاتاہے اور اب حاجی کی زندگی پھر معمولی طورپر شروع ہوجاتی ہے۔‘‘(ص۲۵۱)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حاجی منیٰ میں قربانی کرنے کے بعد احرام نہیں  کھولے گا، بلکہ قربانی کے بعد حرم جاکر طواف کرے گا اور دورکعت نماز ادا کرے گا، اس کے بعد احرام کھولے گا، جب کہ ہمیں  حج کے لیے جاتے وقت بتایا گیا تھا کہ قربانی کے بعد منیٰ ہی میں  احرام کھول دینا ہے۔ چنانچہ سب کے ساتھ میں نے بھی ایسا ہی کیاتھا۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کون ساعمل صحیح ہے؟قربانی کے بعد منیٰ ہی میں  احرام کھول دینا ،یا طواف کرنے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام کھولنا؟

رمی جمار کس واقعہ کی یادگارہے؟

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’خطبات ‘ میں لکھا ہے:
’’ دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے اور وہاں اس ستون پر کنکریوں سے چاند ماری کی جاتی ہے جہاں تک اصحاب فیل کی فوجیں کعبہ ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں ۔‘‘(ص۲۵۱)
آگے مزید لکھا ہے:
’’دوسرے دن (حاجی) پتھر کے ان تین ستونوں پر باری باری کنکریوں سے ، پھر چاند ماری کرتا ہے جن کوجمرات کہتے ہیں اورجودر اصل اس ہاتھی والی فوج کی پسپائی اورتباہی کی یادگار میں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال عین حج کے مواقع پر اللہ کے گھر کو ڈھانے آئی تھی اور جسے اللہ کے حکم سے آسمانی چڑیوں نے کنکریاں مار مار کرتباہ کردیا تھا‘‘۔(ص۲۵۱،۲۵۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج میں رمی جمرات یعنی کنکریاں مارنا ہاتھی والی فوج کی پسپائی کی یادگار ہے ، جب کہ عام طور پر کنکریاں مارنے کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی سنت بتایا جاتا ہے۔

مسجد میں  نکاح کی تقریب

میری بیٹی کا نکاح تین برس قبل شرعی طور پر انجام دیا گیا ۔ مسجد میں نکاح ہوا ۔ غیراسلامی رسوم، لین ، دین ، جہیز وغیرہ سے اجتناب کیا گیا ۔ اس وقت سے خاندان میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنا کہاں تک جائز ہے ؟ یہ تو نئی بدعت ہے۔صحابۂ کرام کے نکاح مسجد میں ہوئے ہوں ، یہ ثابت نہیں ہے۔بہ راہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔