روزوں کی قضا کا مسئلہ

بہ راہ کرم میرے درج ذیل سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں :
(۱) ولادت کے بعد ایامِ نفاس میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے کئی بچوں کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کافی روزے قضا ہوگئے ہیں اور ان پر عرصہ بیت گیا ہے۔ درمیان میں جب جب ہمت ہوئی ان میں سے کچھ روزے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صحت و تن درستی کے لحاظ سے کم زور و ناتواں واقع ہوئی ہوں ۔ گھریلو ذمہ داریاں بھی بہت ہیں ۔ جب جب روزہ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں ، نڈھال ہوجاتی ہوں ۔ صحت اس میں تسلسل کی اجازت نہیں دیتی۔ مختلف عوارض کا علاج بھی جاری ہے۔ کیا ان حالات میں روزہ رکھ کر ہی قضا روزوں کا فرض ساقط ہوگا یا فدیہ دے کر بھی اس فرض سے سبک دوش ہوا جاسکتا ہے؟
(۲) اگر حج کا ارادہ ہو اور بہت سے روزوں کی قضا بھی لازم ہو تو کیا سفر سے پہلے قضا روزوں کی ادائی ضروری ہے؟
(۳) فدیہ کے سلسلے میں بھی وضاحت فرمائیں کہ اس کا صحیح طریقہ اور مقدار کیا ہے؟

رمضان میں امام مسجد کو بونس

ہمارے یہاں ایک مسجد ہے، جس کے امام کو ہر ماہ پانچ ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ تراویح پڑھانے کے لیے الگ سے ہنگامی چندہ کیا جاتا تھا اور اسے نذرانے کے طور پر امام صاحب کو دیا جاتا تھا۔ مگر بعض رسائل میں اس کے خلاف مستند اداروں کا فتویٰ شائع ہوا اور ہماری مسجد کے متولی صاحب نے بھی الگ سے فتویٰ منگوایا، جس میں اسے ناجائز کہا گیا تھا، تو اسے بند کردیا گیا۔ مگر پھر بونس کے نام سے دو ماہ کے برابر تنخواہ یعنی دس ہزار روپے عید کے موقع پر دیے جانے لگے۔ دلیل یہ دی گئی کہ سرکاری ملازمین اور بعض پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو بھی تہواروں مثلاً دیوالی وغیرہ کے موقع پر بونس دیا جاتا ہے۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

نماز ِ تراویح کا مخصوص طریقہ

ہمارے شہر کی ایک مسجد میں گزشتہ تین سالوں سے رمضان کی طاق راتوں میں تراویح کی نماز اس طرح پڑھائی جاتی ہے کہ ہر چار رکعت کے بعد تقریباً ایک گھنٹے کا وقفہ دیا جاتا ہے، جس میں مختصر بیان ہوتا ہے اور مختلف اذکار پڑھائے جاتے ہیں ۔ مثلاً کبھی سورۂ یٰسٓ کی آیات، کبھی ایک ہی سانس میں بلند آواز سے ’’اللہ اللہ‘‘ اور کبھی ’’ربی اسمی شیء اللّٰہ نبی محمد صلی علی‘‘ پڑھایا جاتا ہے۔ درمیان میں مسجد ہی میں چائے پلائی جاتی ہے۔ اس طرح تراویح کی نماز ختم ہوتی ہے تو کچھ دیر کے بعد تہجد کی نماز باجماعت پڑھائی جاتی ہے۔ اس طرح سے سحری کا وقت ہوجاتا ہے۔ سحری کا نظم بھی مسجد میں ہوتا ہے۔
ان اعمال کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان اعمال کو پسند نہیں کیا۔ اس مسجد میں عورتیں بھی تراویح کی نماز کے لیے آتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ نے شکایت کی کہ تراویح کی نماز اس طرح سحری تک نہ پڑھائی جائے۔ جب کہ کچھ لوگ اس کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ رمضان عبادت کا مہینا ہے۔ اس طرح لوگ فجر تک مسجد ہی میں رہتے ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ عبادت، ذکر و دعا اور دینی بیان سننے کا موقع ملتا ہے۔ جب امام صاحب سے اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ خفا ہوجاتے ہیں اور مسجد چھوڑ کر چلے جانے کی بات کرتے ہیں ۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، مذکورہ بالا اعمال اور تراویح کا طریقہ کہاں تک درست ہے؟ کیا لوگوں کو فجر تک عبادت میں مشغول رکھنے کے لیے اس طرح تراویح پڑھنا صحیح ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ نماز ِ تہجد باجماعت پڑھنا کیسا ہے؟

تعمیر ِ مسجد میں غیر مسلم کا مالی تعاون

ہمارے شہر کی جامع مسجد کے لیے ایک ہندو صاحب اپنی خوشی سے بورویل ڈلوانا چاہتے ہیں ۔ ان کے زراعت اور سونے چاندی کے کاروبار ہیں ۔ انکار کے باوجود وہ صاحب مصر ہیں کہ ثواب کے کام میں میرا پیسہ استعمال کرکے مسجد کے لیے بورویل ڈلوالو۔ شریعت ِ مطہرہ میں اس کا کیا حکم ہے؟ بہ راہِ کرم جواب عنایت فرمائیں ۔

مردے کو دفنانے کا طریقہ

مردے کو قبر میں دفن کرتے وقت تین مرتبہ مٹی ڈالی جاتی ہے اور اس کے ساتھ دعا بھی پڑھی جاتی ہے۔ بہ راہِ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں ۔ کیا تین مرتبہ مٹی ڈالنا ضروری ہے؟ اس کے ساتھ جو دعا پڑھی جاتی ہے، کیا وہ اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے؟

رقمِ زکوٰۃ سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائی

ہماری سوسائٹی کے تحت صوبے کے مختلف شہروں ، قصبات اور دیہاتوں میں تعلیمی ادارے چلتے ہیں ۔ اگرچہ طلبہ سے فیس لی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود بیش تر اداروں میں ماہانہ و سالانہ خسارہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تعمیر و مرمت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اصحاب ِ خیر سے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تو جو رقمیں حاصل ہوتی ہیں وہ بالعموم زکوٰۃ کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس رقم سے خسارہ پورا نہ کیا جائے اور اسے تعمیر و مرمت میں نہ لگایا جائے تو پھر کوئی اور صورت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ ادارے ختم یا بے اثر ہوجائیں ۔ یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ نادار اور غریب طلبہ کی فیس وغیرہ زکوٰۃ کی مد سے ادا کی جاتی ہے۔
بعض حضرات اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں اور تعمیرات و مرمت پر صرف نہیں کی جاسکتی۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟

کیا حج سے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ؟

عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ حج کے بعد حاجی گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ بہ طور دلیل یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو شخص اللہ کی خوش نودی کے لیے حج کرے اور (اثناے حج) فحش گوئی سے بچے اور نافرمانی نہ کرے تو وہ ایسا بے گناہ ہوکر لوٹتا ہے جیسے اس دن بے گناہ تھا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ لیکن بعض کتابوں میں میں نے یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ حج ادا کرنے سے کبیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے، ان کی سزا بہر حال مل کر رہے گی۔
اس تضاد کی وجہ سے میں الجھن کا شکار ہوگیا ہوں ۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

حج بدل

کیا حج ِ بدل کوئی ایسا شخص کرسکتا ہے، جس نے خود پہلے حج نہ کیا ہو؟

قربانی کے بعض مسائل

قربانی کے بارے میں بسا اوقات طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ، جن کی بنا پر ذہن الجھن کا شکار ہوجاتا ہے، بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں :
۱- کیا کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے؟ بعض حضرات اس پر اشکال وارد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی میت کے نام سے قربانی جائز نہیں ہے۔
۲- بعض حضرات اپنے علاوہ اپنے بیوی بچوں ، ماں باپ اور دیگر اعز ّہ کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ کئی چھوٹے جانور ذبح کرتے ہیں یا بڑے جانوروں میں کئی حصے لیتے ہیں ۔ بیوی اگر صاحب نصاب ہو تو کیا اس کا الگ سے قربانی کروانا ضروری ہے؟
۳- بعض حضرات سے یہ بھی سننے کو ملا کہ جانور کا خصی کرانا اس میں عیب پیدا کرتا ہے۔ حدیث میں عیب دار جانور کی قربانی سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے خصی کیے گئے جانور کی قربانی جائز نہیں ۔

شادی کی رسمیں

میرے گاؤں میں چند رسوم رائج ہیں جو میرے خیال میں درست نہیں ہیں ۔ بہ راہِ کرم قرآن و حدیث اور شریعت کی روشنی میں ان پر مدلل اور مفصل اظہار خیال فرما دیں :
۱- شادی کے موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے شادی کی تاریخ سے ایک یا دو روز پہلے گاؤں والوں کو گھر گھر کھانا پہنچایا جاتا ہے۔
۲- شادی کے موقع پر لڑکے والے لڑکی والوں سے کھانے کے لیے خاص خاص چیزوں کی فرمائش، بل کہ حکم صادر کرتے ہیں ۔
اس طرح کے کھانے کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ فقیروں کا کھانا ہے۔ بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ ان رسوم کا شریعت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟