قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے اُمور بیان ہوئے ہیں جنھیں زمانۂ حال کی تحقیقات غلط قرار دیتی ہیں ۔ اس صورت میں ہم قرآن وحدیث کو مانیں یا علمی تحقیق کو؟ مثلاً:
قرآن کہتا ہے کہ نوع انسانی آدمؑ سے پیداہوئی،بخلاف اس کے علماے دورِ حاضر کا دعویٰ یہ ہے کہ انسان حیوانات ہی کے کنبے سے تعلق رکھتا ہے اور بندروں اور بن مانسوں سے ترقی کرتے کرتے آدمی بنا ہے۔

آفتاب کی حرکت

قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ آفتاب حرکت کرتا ہے مگر سائنس کہتی ہے کہ نہیں ، آفتاب ساکن ہے۔ اس صورت میں ہم قرآن وحدیث کو مانیں یا علمی تحقیق کو؟

بادلوں میں کڑک اور چمک کی وجہ

بادلوں میں جو کڑک اور چمک ہوتی ہے،اس کے متعلق اسلام کی راے یہ ہے کہ یہ بادلوں کو ہنکاتے ہوئے فرشتوں کے کوڑے چمکتے اور آواز نکالتے ہیں ،حالاں کہ زمانۂ حال کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ رعد اور برق کا ظہور بادلوں کے ٹکرانے سے ہوتا ہے۔ اس صورت میں ہم قرآن وحدیث کو مانیں یا علمی تحقیق کو؟

نفس ،دماغ اور جسم کا باہمی تعلق

نفس (mind)دماغ (brain) اور جسم کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دماغ اور جسم مادے سے مرکب ہیں اور نفس یا دماغ ایک غیر مادی چیز ہے۔

غارِ حرا میں نبی ﷺ کے غوروفکر کی حیثیت

آپ نے غالباً تفہیم اور بعض دوسرے مقامات پر پہلی وحی کی بہت عمدہ کیفیت بیان کی تھی اور یہ نقشہ کھینچا تھا کہ یہ کوئی داخلی (subjective) تجربہ نہ تھا جس کے لیے پہلے سے کوشش اور تیاری کی گئی ہو بلکہ دفعۃً خارج سے فرشتے اور وحی کا نزول ہوا تھا جو ایک قطعی غیر متوقع تجربہ تھا اور آں حضورﷺ کو اس سے ایک ایسا اضطراب لاحق ہوا تھا جیسا کہ ایک اچانک رونما ہونے والے واقعے سے ہوتا ہے۔ گیان دھیان، مراقبہ اور وحیِ نبوت کے مابین واضح خطِ امتیاز یہی ہے کہ نبی کا مشاہدہ بالکل ایک خارجی اور معروضی (objective) حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ غارِ حرا میں نبی ﷺ کے غوروفکر کی حیثیت کیا تھی؟ معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ بھی داخلی اور قلبی واردات کے اکتساب کی کوشش ہی تھی۔

نبی پر نزولِ وحی کی نفسیاتی تعبیر

مجھ سے ایک نفسیاتی معالج ( psychiatrist) نے سوال کیا کہ نبی پر نزولِ وحی کیا اسی طرح کی چیز نہیں جیسے کہ ایک سائی کوٹک مریض کو بعض صورتیں دکھائی دیتی ہیں اور آوازیں سنائی دیتی ہیں (نعوذ باللّٰہ نقلِ کفر کفر نبا شد)۔ میں اسے پوری طرح قائل نہ کرسکا اس لیے آپ سے راہ نمائی کا طالب ہوں ۔

ذہنی امراض اور جرائم کی سزا

اسلام جرائم کے ارتکاب میں مجرم کو ایک صحیح الدماغ اور صاحبِ ارادہ فرد قرار دے کر اُسے قانوناً و اخلاقاً اپنے فعل کا پوری طرح ذمہ دار قرار دیتا ہے مگر ذہنی و نفسی عوارض کے جدید معالج اور ماہرین جنھیں ( psychiatrist) کہا جاتا ہے وہ سنگین اور گھنائونے جرائم کرنے والوں کو بھی ذہنی مریض کہہ دیتے ہیں اور انھیں جرائم کے شعوری و ارادی ارتکاب سے بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں ۔ یہ نظریہ اسلامی نقطۂ نظر سے کہاں تک صحیح اور قابلِ تسلیم ہے؟

لفظ’’دل ‘‘کا سائنسی اور ادبی مفہوم

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ ({ FR 1644 }) (البقرہ:۷) سے یہ خیال آتا ہے کہ گویا دل خیالات کی ایک جلوہ گاہ (agency) ہے۔شاید اس زمانے میں جالینوس کے نظریات کے تحت’’دل‘‘ کو سرچشمۂ افکار (originator of thought) سمجھا جاتا تھا،لیکن آج کل طبی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ دل دوران خون کو جاری رکھنے والا ایک عضو ہے، اور ہر قسم کے خیالات اور حسیّات اور ارادوں اور جذبات کا مرکز دماغ ہے۔ اس تحقیق کی وجہ سے ہر اس موقع پر اُلجھن پیدا ہوتی ہے جہاں ’’دل‘‘ سے کوئی ایسی چیز منسوب کی جاتی ہے جس کا تعلق حقیقت میں دماغ سے ہوتا ہے۔