طریق انتخاب کے مسئلے میں ریفرنڈم

طریق انتخاب کے مسئلے میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کرانے کا جو مطالبہ کیا تھا، اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں ۔ میں ان کا خلاصہ پیش کرکے آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے:
۱۔جداگانہ انتخاب اگر دین اور شریعت کے اصول اور احکام کا لازمی تقاضا ہے تو اس پر عوام سے استصواب کے کیا معنی؟ کیا اسی طرح کل نماز اور روزے پر بھی استصواب کرایا جائے گا؟ کیا آپ یہ اصول قائم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت جس چیز کو حق کہے وہ حق، اور جس چیز کو باطل کہے وہ باطل؟ فرض کیجیے کہ ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں نکلے تو کیا آپ اس کو حق مان لیں گے اور پھر جداگانہ انتخاب اسلامی اصول واحکام کا تقاضا نہ رہے گا؟
۲۔ جداگانہ اور مخلوط دونوں ہی طریقے غیر اسلامی ہیں ، کیوں کہ اسلام کی رو سے تو مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی نمایندگی ہی اصولاً غلط ہے۔آپ جب جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ نے اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی شرکت کا اصول مان لیا۔
۳۔ استصواب راے کی تجویز لا کر آپ نے طریق انتخاب کے مسئلے کو اس خطرے میں ڈال دیا ہے کہ شاید اس کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں ہو۔ آخر آپ کے پاس اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اس کا نتیجہ لازماً جداگانہ طریق انتخاب ہی کے حق میں ہوگا۔
۴۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں مگر طریق انتخاب کا فیصلہ مخلو ط راے شماری سے کرانے کے لیے تیار ہیں ۔آخر ریفرنڈم بھی تو مخلوط ہی ہوگا۔
۵۔آپ طریق انتخاب کے مسئلے پر ریفرنڈم کرانے کے بجاے یہ کیوں نہیں کرتے کہ ملک کے آئندہ انتخابات عام میں اس مسئلے پر الیکشن لڑیں ؟ اگر عوام الناس جداگانہ انتخاب کے حامی ہیں تو وہ انھی لوگوں کو ووٹ دیں گے جو اس طریق انتخاب کے حامی ہوں گے۔اس طرح اس مسئلے کا تصفیہ ہوجائے گا۔
۶۔ ریفرنڈم کے لیے ملک کے موجودہ دستور میں کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لیے ناگزیر ہوگا کہ پہلے قومی اسمبلی اس مقصد کے لیے دستور میں ترمیم کرے، اور ترمیم کے لیے لامحالہ۲/۳ اکثریت درکار ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ جب مخلوط انتخاب کے قانون کو بدلنے کے لیے مجرد اکثریت بہم نہیں پہنچ رہی ہے تو ریفرنڈم کے لیے۳ /۲ اکثریت کہاں سے بہم پہنچے گی؟
۷۔جمہوری ممالک میں بالعموم ریفرنڈم کے ذریعے سے ملکی مسائل کا فیصلہ کرنے کے بجاے پارلیمنٹ یا ایوان نمائندگان ہی کو آخری فیصلے کے اختیارات دیے گئے ہیں ۔براہِ راست عوام سے مسائل کا تصفیہ کرانے میں بہت سی قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ طریقہ جمہوری ملکوں میں مقبول نہیں ہوا ہے۔
یہ ہیں وہ بڑے بڑے اعتراضات جو ریفرنڈم کی تجویز پر میں نے سنے یا پڑھے ہیں ۔ان سے کم ازکم شک یا تذبذب کی کیفیت تو ذہنوں میں پیدا ہوہی جاتی ہے،اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ ان سب کو صاف کرکے عوام کو اس مسئلے میں پوری طرح مطمئن کردیں ۔

مَیں نے جناب کی خلافت و ملوکیت اور عباسی صاحب کی جوابی کتاب تبصرہ محمودی حصہ اول و دوم کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کیا اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عباسی صاحب اسلام کے سیاسی نظام کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے ہیں ۔ چنانچہ انھوں نے اسلام کا جو سیاسی نظریہ پیش فرمایا ہے وہ ذہنی پیچیدگی کا شاہکار ہے البتہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جناب چند باتوں کی وضاحت کردیں تو آپ کے خلاف پروپیگنڈا علمی طبقے میں مؤثر نہ ہوسکے گا۔
عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ اسلام میں کوئی طریقہ انتخاب براے خلیفہ معین نہیں ہے اس لیے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں عوام کا اجتماع نہ تھا بلکہ چند افراد جس میں تمام طبقوں کی نمائندگی بھی نہ تھی جمع ہوئے، اس لیے یہاں عوامی راے یا تائید کا کوئی سوال نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ کے معاملے میں آپ کو حضرت ابوبکرؓ نے نامزد کر دیا اور سب نے اس نامزدگی پر اتفاق کر لیا، راے عامہ کے اظہار کا یہاں بھی کوئی سوال نہیں آیا۔ پھر عباسی صاحب کہتے ہیں کہ اگر راے عامہ کے اصول کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بیعت تو صرف مدینہ میں ہوئی تھی۔ پورے ملک میں راے عامہ یا مسلمانوں کی رضامندی کا سوال یہاں بھی خارج از بحث ہوجاتا ہے۔ مہربانی کرکے وضاحت کیجیے۔

ذمیوں سے متعلق مساءل حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کی حیثیت

میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں ۔ سالِ گزشتہ صوبے کی ہندو مہا سبھا کا پروپیگنڈا سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں ۔آپ کی چند کتابیں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ اوّل وسوم، ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘، ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ ،’’سلامتی کا راستہ‘‘ وغیر ہ دیکھی ہیں ،جن کے مطالعے سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بد ل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔جس حکومت ِالٰہیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں ،اس میں زندگی بسر کرنا قابل فخر ہوسکتا ہے مگر چند اُمور دریافت طلب ہیں ۔خط وکتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جو دریافت طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہندوئوں کو حکومتِ الٰہیہ کے اندر کس درجے میں رکھا جائے گا؟آیا ان کو اہل کتاب کے حقوق دیے جائیں گے یا ذمی کے؟اہلِ کتاب اور ذمی لوگوں کے حقوق کی تفصیل ان رسائل میں بھی نہیں ملتی۔ مجھے جہاں تک سندھ پر عربی حملے کی تاریخ کا علم ہے،محمد بن قاسم اور اس کے جانشینوں نے سندھ کے ہندوئوں کو اہلِ کتاب کے حقوق دیے تھے۔اُمید ہے کہ آپ اس معاملے میں تفصیلی طور پر اظہارِ خیال فرمائیں گے۔
واضح رہے کہ میں محض ایک متلاشیِ حق کی حیثیت سے سوال کررہا ہوں ۔

اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو،مثلاًعیسائی، یہودی،بدھ، جین،پارسی،ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟کیا ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی بھی اسی طرح اجازت ہوگی جیسا کہ آج کل پاکستان اور دیگر ممالک میں کھلے بندوں پرچار ہوتا ہے؟ کیا اسلامی مملکت میں ایسے مذہبی یا نیم مذہبی ادارے مثلاًادارہ مکتی فوج(salvation army) کیتھڈرل، کانونٹ، سینٹ جان یا سینٹ فرانسز وغیرہ جیسے ادارے قانوناً بند کردیے جائیں گے (جیسا کہ حال میں سیلون میں ہوا یا دو ایک ممالک میں ہوچکا ہے)، یا فراخ دلی سے مسلمان بچوں کو وہاں بھی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے کی عام اجازت ہوگی؟ کیا اس صدی میں بھی ان اقلیتی فرقوں سے جزیہ وصول کرنا مناسب ہوگا(عالمی حقوق انسانی کی روشنی میں بھی) جب کہ وہ نہ صرف فوج اور سرکاری عہدوں پر فائز اور حکومت کے وفا دار ہوں ؟

آپ کی جملہ تصانیف اور سابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہلِ کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوئوں میں اچھوتوں کی۔

ذِمیوں کے پرسنل لا کاحق

کیا ہندوئوں کا قومی قانون(Personal Law) ہندوئوں پر نافذ ہوگا یا نہیں ؟ میر امدعا یہ ہے کہ ہندو اپنے قانونِ وراثت،مشترکہ فیملی سسٹم اور متبنّٰی وغیرہ بنانے کے قواعد( مطابق منوشاستر) کے مطابق زندگی بسر کریں گے یا نہیں ؟ دوسری دریافت طلب چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کے فوج داری اور دیوانی احکام مسلمانوں کی طرح ہندوئوں پر بھی حاوی ہوں گے؟

ملکی نظم ونسق میں ذِمیوں کی شرکت

کیا ذمی ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں ؟کیا پولیس ،فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کاحصہ ہوگا ؟اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن قبول کرنے کو تیار ہوں گے جو کہ آپ حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو دیں گے؟

آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے،خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ‘‘({ FR 2278 }) براہ کر م اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو،ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اُصولوں پر ایمان لا کر اسے چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟

غیرمسلموں کاحقِ تبلیغ

آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہندوئوں کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی،ان کو مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کاحق دیا جائے گا‘‘۔مگر آپ نے یہ نہیں تحریر فرمایا کہ آیا ہندوئوں کو تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں ؟