فقہی اصطلاحات اور فقہاے کرام

یہ بات مشہور ہے او رکتب متداولہ نیز ابن حزمؒ کی اجتہاد وقیاس کے خلاف یورش سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ امام دائود ظاہریؒ اوران کے اتباع،اجتہاد، استنباط، قیاس او ر استحسان کے شدیدمخالف ہیں ۔ لیکن خود ابن حزمؒ ہی کی کتابوں سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اجتہاد کے عادی ہیں ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ حقیقت الامر کیا ہے؟کیا یہ کوئی تعبیر کا فرق ہے یا سچ مچ وہ اجتہاد کے قائل نہیں ہیں ؟ اور اگر نہیں ہیں تو ان کے اپنے اجتہاد کی توجیہ اورپس منظر کیا ہے؟

تقلید اور اتباع

کتاب’’جائزہ‘‘ صفحہ ۵۵ پر ایک سوال کے جواب میں یہ عبارت آپ کی طرف منسوب ہے: ’’میرے نزدیک صاحب علم آدمی کے لیے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کوئی شدید تر چیز ہے۔‘‘ اب غور کیجیے کہ مثلاً حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت امام غزالی ؒ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ ،حضرت شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒاور حضرت مولانا اشرف علیؒ سب مقلدین ہیں ، تو کیا آپ کی عبارت کے سیاق وسباق سے ایسے لوگ مستثنیٰ ہیں یا نہیں ، یا آپ کے نزدیک یہ حضرات صاحب علم نہ تھے؟امید ہے کہ آپ اپنے منصفانہ انداز میں اپنے قلم سے جواب تحریر فرمائیں گے۔

تقلید ِ ائمہ اربعہ کے متعلق آپ کا نظریہ کیا ہے؟یعنی تقلید کو آپ کسی حد تک جائز سمجھتے ہیں یا نہیں ؟اور اگر جائز سمجھتے ہیں تو کس حد تک؟ جہاں تک میری معلومات کام کرتی ہیں ،آپ ایک وسیع المشرب مقلد ہیں ؟

تقلیدِ ائمہ اربعہ کو گروہِ’’ اہل حدیث‘‘ حرام وشرک بتاتا ہے ۔کیا یہ صحیح ہے؟کیا مقلدین اہل حدیث نہیں ہیں ؟تقلید اصل میں کیا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے؟

ایک مسلمان کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے نفس تقلید فرض ہے یا نہیں ؟ اور تقلید شخصی کا درجہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟ اور آپ کے نزدیک تقلیدِ شخصی کو واجب کہنے والے لائق تحسین ہیں یا قابل ملامت؟

اجماع کاحجت ہونا

ایسا اجماع جو کسی صحیح حدیث پرمؤسس ہو،واقعی شرعی حجت ہے اور ایسے اجماع کا منکر یقیناً کافر ہے۔ لیکن ایسا اجماع جو علما نے کسی ایسے مقصد پر کرلیا ہو جو مخبرِ صادق ؐ کے لفظوں سے صراحتاً ثابت نہ ہو یا کسی ایسی حقیقت سے تعلق رکھتا ہو جس کی تصریح شارع علیہ السلام (کذا) نے نہ کی ہو اور اسے مصلحتاً مجمل ہی رہنے دیا ہو،کیا یہ بھی شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا منکر کافر ہے؟

اجماع ِ صحابہ

آپ حضرات کے خیال میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع شرعی طور پر حجت ہے یا نہیں ؟({ FR 1930 })

مآخذ قانون کی تفصیل

متذکرہ بالا چار مآخذ کے علاوہ اور کون سی چیزیں ماخذ قانون ہیں ؟ کیا علّت، دوسرے ممالک کے رواج، عرف، عادت، تعامل، سنن القبل] شرع ما قبلنا[، عموم بلویٰ، صاحب امر کی ہدایات، معاہدات وغیرہ کو مآخذ قانون بنایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ فقہا نے ان تمام کو مآخذ قانون کی فہرست میں تو نہیں لکھا لیکن دوران بحث میں ان تمام کاتذکرہ مآخذ قانون کی حیثیت سے کیا ہے، اور خلفاے راشدین کے عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاًحضرت عمرؓ نے زراعت ومالیاتی قانون میں شامی،مصری اور ایرانی قانون کی پیروی کی،رجسٹر اور حسابات رکھنے کے طریقے ان سے اخذ کیے، غیر اسلامی حکومتوں کے تاجروں پر اتنا محصول عائد کیا جتنا کہ ان کی حکومتیں مسلمان تاجروں پر عائد کیا کرتی تھیں … تو کیا اس سے یہ اُصول مستنبط نہیں ہوتا کہ قرآن وحدیث کی مقرر کردہ حدود کے اندر دوسرے ممالک کے قانون سے استفادہ،اور نہ صرف استفادہ بلکہ اس کو بعینہٖ اخذ کیا جاسکتا ہے؟حضرت عمرؓ کا عمل تو کم ازکم یہی ثابت کرتا ہے۔ آج اگر اسلامی حکومت وجود میں آئے تو کیا وہ مغربی ممالک کی سیاسی،معاشرتی،ادبی، اقتصادی اور سائنٹی فِک ترقیات کو نظر انداز کرکے نئے سرے سے اپنی عمارت کی بنیاد نہ رکھے گی،محض اس غلط تصور اور تعصب کی بنا پر کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے،وہ غلط ہے؟کیایہ تصور بالکل اسی طرح غلط نہیں کہ جو کچھ مغرب سے آیا ہے، وہی صحیح ہے؟اگر یہ ایک انتہا ہے تو وہ دوسری انتہا ہے۔پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ مغرب کی جو باتیں شریعت کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں ،ان کو بعینہٖ یا ان میں ادل بدل کرکے لے لیا جائے۔

بزرگانِ سلف کے اجتہادات

کیا بزرگان سلف اور ائمہ نے جو اجتہادات کیے،اگر ان مسائل میں کوئی تبدیلی واضافہ ممکن نہیں تو ان کو اختیار کرلیا جائے، ورنہ زمانہ کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ان کا اجتہاد کچھ مسائل میں اگر سازگار نہ رہا ہو تو آج کے فقہا ازسر نو اجتہاد کریں جو دورحاضر کی ضروریات کے مطابق ہو؟

معاشرتی ضروریات کے مطابق نصوص کی نئی تعبیر

کیاقرآن وحدیث کے الفاظ کو تبدیل کیے بغیر سوسائٹی اور معاشرت کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ان دو ماخذ کے الفاظ کی تعبیر میں تبدیلی، اضافہ یا کمی کی جاسکتی ہے؟مثلاً جیسا کہ مؤلفۃ القلوب کی مثال سے ثابت ہوتا ہے۔ اس قسم کے مسائل آج بھی پیدا ہوسکتے ہیں ،اگرچہ ان کی تعداد کم ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں ان احکام ومسائل میں جو نصوص قرآنی یا احادیث لازمی پر مبنی ہیں ،زمانے کی ضروریات اور ان احکام کی علت بدل جانے پر ایسے نئے احکام مستنبط کیے جاسکتے ہیں جو اسلام کی روح کے مطابق ہوں ۔آخر فقہا ہی کا یہ متفق علیہ مسلک ہے کہ ہر حکم کی ایک علت ہے اور فلاح عامہ بہرحال مقدم ہے۔
مثلاً زکاۃ کا حکم قرآن شریف میں مذکور ہے لیکن زکاۃ کی کوئی شرح مذکور نہیں ۔ احادیث میں جو شرح مذکور ہے وہ زمانے کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اب ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا زکاۃ کو ملک کے عام ریونیو یا ٹیکس کی حیثیت حاصل ہے(جب کہ حکومت اسلامی ہو؟) اگر ہے تو دوسرا سوال شرح کا ہے کہ آج کے مالیاتی تقاضے قدیم شرح سے پورے نہیں ہوسکتے۔