قرآن وحدیث کا باہمی تعلق

رسائل ومسائل] سوال نمبر۲۲۹ [ پیراگراف اوّل میں آپ نے لکھا ہے:
’’قرآن میں اگر کوئی حکم عموم کے انداز میں بیان ہوا ہو اور حدیث یہ بتائے کہ اس حکم عام کا اطلاق کن خاص صورتوں پر ہوگا تو یہ قرآن کے حکم کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح ہے۔اس تشریح کو اگر آپ قرآن کے خلاف ٹھیرا کر رد کردیں گے تو اس سے بے شمار قباحتیں پیدا ہوں گی جن کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں تو آپ خود مان جائیں گے کہ فی الواقع یہ اصرار غلطی ہے۔‘‘
اگر آپ اس عبارت کے آخر میں چند مثالیں اس امر کی پیش فرماتے تو مستفسر کو مزید تشفی ہوجاتی۔ مجھے چند ایسی امثلہ کی ضرورت ہے جس سے ایک منکر حدیث مان جائے کہ ایساکرنے سے (تشریح کو قرآن کے خلاف ٹھیرانے سے) فی الواقع قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ بہتر ہوگا اگر آپ چار امثلہ مہیا فرمادیں ۔
میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ حدیث قرآ ن کی وضاحت کرتی ہے مگرمیں کسی حکم کے قرآن میں نہ ہونے اور خلاف قرآن ہونے میں تمیز نہیں کرسکتا۔ازراہِ کرم آپ چار اَمْثِلہ ایسی پیش فرما دیں جس سے میرے لیے دونوں باتوں (خط کشیدہ) کا فرق پوری طرح واضح ہوجائے؟

طعام المسکین کے معنی

سورۃ الحاقہ اور سورۃ الماعون کی آیت وَلَا یَحْضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ کا ترجمہ دونوں جگہ تفہیم القرآن میں مختلف ہے۔ ایک جگہ ترجمے ’مسکین کو کھانا کھلانا‘ کیا گیا ہے اور دوسری جگہ ’مسکین کا کھانا دینا‘ ۔اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول

معوذتین کی شان نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور ؈ پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالۂ احادیث تحریر فرمایا ہے۔یہ کہاں تک درست ہے؟نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں ؟

جنّات اور انسانوں کا دوالگ الگ گروہ ہونا

یہ بات غالباً آپ کے علم میں ہوگی کہ قرآن کے بعض نئے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں جن وانس سے مراد دو الگ الگ قسم کی مخلوق نہیں ہے، بلکہ جنوں سے مراد دیہاتی اور انسانوں سے مراد شہری لوگ ہیں ۔ آج کل ایک کتاب’’ابلیس وآدم‘‘زیر مطالعہ ہے۔اس میں دیگر جملہ دور ازکار تاویلات سے قطع نظر ایک جگہ استدلال قابل غور معلو م ہوا۔مصنف لکھتے ہیں : ’’سورۂ الاعراف کی آیت:۷ میں بنی آدم سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئیں گے اور سورۂ انعام کی آیت:۶ میں جن وانس کے گروہ سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ)آئے تھے۔ قرآن کریم میں جنات(آتشیں مخلوق) کے کسی رسول کا ذکر نہیں ۔ تمام رسولوں کے متعلق حصر سے بیان کیا ہے کہ وہ انسان بنی آدم تھے اور انسانوں میں سے مرد۔ اس لیے جب’’گروہ جن وانس‘‘سے کہا گیا کہ تم میں سے(مِنْکُمْ) رسول آئے تھے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ’’گروہِ جن وانس‘‘ سے مقصود بنی آدم ہی کی دو جماعتیں ہیں ۔ اس سے انسانوں سے الگ کوئی اور مخلوق مراد نہیں ہے۔‘‘ براہِ کرم واضح کریں کہ یہ استدلا ل کہاں تک صحیح ہے۔ اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے اور اس میں سے رسول نہیں مبعوث ہوئے تو پھر مِنْکُمْ کے خطاب میں وہ کیسے شریک ہوسکتے ہیں ؟

جِن اور انس اور خلافتِ ارضی

کیا انسانوں کے ساتھ جِن بھی خلافتِ ارضی میں شریک ہیں ۔ کیا ان کی نفسیات بھی انسانی نفسیات کے مماثل ہیں ۔ یہ مشہور ہے کہ فلاں شخص پر جِن سوار ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا ابلیس یا شیطان ہر جگہ حاضر و موجود ہے اور ہر انسان تک بیک وقت رسائی رکھتا ہے؟

شیطان کا سر

تفہیم القرآن جلد چہارم ،صفحہ ۲۸۹ (طبع اول) آیت۵۶، سورۂ الصّٰٓفّٰت ،ح۳۶ —— تشبیہ دینے والے (خدا) کے لیے توتشبیہ کے دونوں ارکان (مشبہ و مشبہ بہ) مشہود ہیں ۔ رہے انسان، تو انھوں نے شیطان کے سر نہیں دیکھے تو زقوم کے شگوفے تو دیکھ رکھے ہیں ۔ مشبہ بہ کی مناسبت سے مشبہ کے متعلق کچھ نہ کچھ تصور قائم کیا جا سکتا… لہٰذا اسے ’’تخیلی تشبیہ‘‘ قرار دینا موزوں نظر نہیں آتا… اس سلسلے میں جو مثالیں مفسر محترم نے پیش کی ہیں وہ اس لیے غیر متعلق ہیں کہ ان کے بیان کرنے والے انسان ہیں جنھوں نے واقعی ان چیزوں کو نہیں دیکھ رکھا۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے تو شیطان اور اس کا سر دیکھ رکھا ہے۔

قرآن کا مطلوب انسان

کن اُصول،خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی ومعاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں ،اسلامی اُصول،روایات اور نقطۂ نظر کے مطابق ممکن ہے؟براہِ کرم حسبِ ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی راے تحریر کیجیے:
[۱] ایک ایسا قابلِ عمل دستور تجویز کیجیے جس کے ذریعے قومی احیا کے مشترکہ مقصد کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مدارسِ فکر کو متحد اور مربوط کیا جاسکے۔
[۲] ایک ایسا اقتصادی نقشہ ونظام مرتب کیجیے جو اُصولِ اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔
[۳] ہندستانی مسلمان جن مخصوص حالات میں گھرے ہوئے ہیں ،انھیں ذہن میں رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر اور جب وہ ایسی آزاد ریاستیں حاصل کرلیں جن میں ان کی اکثریت ہو،تو ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کرسکیں جس میں مذہب اور سیاست کے درمیان ایک خوش آئندہم آہنگی پیدا ہوجائے۔
[۴] اسلامی اُصول، روایات، تصورات اورنظریات کے مطابق ایک ایسی اسکیم مرتب کیجیے جو مسلمانوں کے معاشرتی،تہذیبی اور تعلیمی پہلوئوں پر حاوی ہو۔
[۵] مجموعی قومی بہبودی کی خاطر مذہبی ادارات یعنی اوقاف اور دوسرے ذرائع آمدنی کو ایک مرکز کے ماتحت منظم کرنے کے لیے طریقِ کار اور نظام اس طرح مرتب کیجیے کہ ان اداروں پر قبضہ رکھنے والے اشخاص کے احساسات، میلانات، اغراض اورمختلف نظریات کا لحاظ رہے۔({ FR 2598 })

فرد اور معاشرے کی کش مکش

فرد اور سوسائٹی کے باہمی تعلقات کی نسبت مندرجہ ذیل خیال اسلامی نقطۂ نظر سے کہاں تک صائب ہے؟
’’شہد کی مکھیوں ،چیونٹیوں اور دیمک کے برعکس انسان معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ حد تک ایک فرد ہے۔بدرجۂ آخر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ گلوں میں بٹ کر جینے کی جبلت رکھتا ہے۔ یہی راز ہے فرد اور معاشرے کے غیر مختتم تصادم کا! کوئی مذہب عدم توافق کی اس گرہ کو کھولنے پر قادر نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ گرہ کھلنے والی ہے ہی نہیں ! کیا خود قرآن نے نہیں کہا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا۔ (التین:۴)اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی… کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا (البلد:۴)۔ میری راے میں ان آیات کی بہترین تأویل یہ ہے کہ ایک مشین — نظام جسمانی — کی حیثیت سے آدمی اشرف المخلوقات ہے۔لیکن معاشر ے کا رکن ہونے کی حیثیت سے وہ معاشر ے کے ساتھ ہمہ وقت متصادم رہنے والا ہے۔‘‘

سورة المائدہ،آیت ۱۲کی تفسیر

’’خطبات‘‘ میں آیت وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۝۰ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ ({ FR 2265 }) (المائدہ:۱۲) کی آپ نے جو تفسیرکی ہے وہ عام مفسرین سے مختلف ہے۔آپ نے اِنِّیْ مَعَکُمْکو لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب بتایا ہے۔حالاں کہ عام مفسرین نے اِنّیْ مَعَکُمْ کو جملۂ مستانفہ قرا ردیا ہے اور لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب لَاُکَفِرَّنَّ عَنْکُمْ بتایا ہے۔آ پ نے تو نہ صرف لَاُکَفِّرَنَّکا جواب نہیں لکھا ہے،بلکہ خطبات میں آیت کے اس آخری حصے کو بالکل چھوڑ ہی دیا ہے۔ معترضین کا دعویٰ ہے کہ نحوی قاعدے کے مطابق بھی اِنِّی مَعَکُمْ کا ٹکڑا لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اِنّیِ مَعَکُمْ اور لَئِنْ اَقَمْتُمْ کے درمیان وقف جائز ہے،حالاں کہ شرط وجواب کے درمیان تووقف جائزنہیں ہوسکتا۔ہم اس اعتراض کا کوئی جواب دیتے ہیں تو حضرات علما فوراًیہ کہہ کر ہمارا منہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم مودودی صاحب کے اندھے مقلد ہو اور عربی کے نحوی قواعد کا انکار کرکے بھی ان کی ’’تفسیر بالرأے‘‘ کی حمایت میں دلیلیں لاتے ہو۔براہ کرم واضح فرمایئے کہ آپ کی تفسیر صحیح ہے تو کن دلائل کی بنا پر؟اور کیا متقدمین میں سے بھی کسی نے یہ تفسیر کی ہے؟نہیں تو وہ کیا اسباب تھے کہ آپ نے اس نئی تفسیر کی ضرورت محسوس کی؟فصیح عربی زبان میں اس کی کوئی نظیر ہو تو اس سے ضرور مطلع کیجیے۔

بنی اسرائیل کا فتح فلسطین سے گریز

سورئہ البقرہ کی آیت ۲۴۳ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ أُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ({ FR 2266 }) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ ۲۶۶ تحریر فرمایا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کے اس خروج کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد انھوں نے فلسطین میں جہاد کرنے سے انکار کر دیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو صحراے سینامیں نظر بند کر دیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی نئی نسل جوان ہوئی، انھوں نے حضرت یوشع کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا۔ یہ واقعہ تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن آیت زیر بحث کا انطباق اس واقعے پر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں خوفِ موت کو علت خروج قرار دیا ہے۔ لیکن مصر سے بنی اسرائیل کی خروج کی علت خوفِ موت نہ تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حکم تھا۔ وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْ({ FR 2267 }) ( الشعرا:۵۲) دوسری بات یہ کہ آیت زیر بحث میں خروج کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مصر سے خروج قابل مذمت نہ تھا بلکہ ہجرت تھی۔ تیسری بات یہ کہفَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ({ FR 2268 }) (البقرہ:۲۴۳) کے الفاظ کا متبادر مفہوم یہی ہے کہ جن لوگوں پر موت طاری کر دی گئی، انھی کو پھر زندہ کر دیا گیا۔ میں نے تفاسیر کا مطالعہ کیا، کہیں بھی آپ والی بات نہیں ملی۔ بلکہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی طرف اشارہ بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ طاغوت کے خوف سے بھاگتے ہوئے نکلے۔ راستے میں ان کو موت دی گئی۔ پھر انھی کو زندہ اٹھایا گیا۔ مہربانی فرما کر اس اشکال کو حل فرمائیں ۔‘‘