مسلمانوں کا مشترکہ نصب العین

کچھ مدت پہلے میرا یہ خیال تھا کہ صرف ہم ہندوئوں میں ہی ایک مشترکہ نصب العین نہیں ہے۔ بخلاف اس کے مسلمانوں میں اجتماعی زندگی ہے اور ان کے سامنے واحد نصب العین ہے۔ لیکن اب اسلامی سیاست کا بغور مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں کاحال ہم سے بھی دگرگوں ہے۔ میں نےمختلف مراکز فکر کے مسلم راہ نمائوں سے ان کے نصب العین اورطریقۂ کار کے بارے میں ایک متلاشیِ حق کی حیثیت سے چند ایک امور جو میرے لیے تحقیق طلب تھے،دریافت کیے۔ ان کے جوابات موصول ہونے پر میرا پہلا خیال غلط نکلا اور معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں بھی طریقۂ کار اور نصب العین کے بارے میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے۔
(اس موقع پر مستفسر نے جماعت اسلامی سے اختلاف رکھنے والے بعض اصحاب کی تحریروں سے چند سطور نقل کی ہیں ۔انھیں حذف کیا جاتا ہے)
ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ آپ کے مشترک العقیدہ راہ نما کس شدید اختلافِ آرا میں مبتلا ہیں ۔ان ٹھوس حقائق اور واقعات کو نظر انداز کرکے محض کتابوں کے صفحات پر ایک چیز کو نظریے کی شکل میں پیش کردینا اور بات ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا قطعاً مختلف چیز ہے۔سیاست ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔کیا آپ میرے اس سارے التماس کو سامنے رکھ کراپنے طریقۂ کار اور راہِ عمل سے بہ تفصیل مطلع فرمائیں گے؟

آپ نے جمہوریت کو قرآن وسنت کا منشا قرار دیا ہے۔آپ بخوبی واقف ہیں کہ فی زماننا جمہوریت ایک مخصوص طرز حکومت کا نام ہے جس کی بنیاد عوام کی غیر محدود حاکمیت کے تصور پر قائم ہے، جسے ہم کسی طرح بھی کتاب وسنت کی منشا کے مطابق قرار نہیں دے سکتے۔ آپ جمہوریت کے لفظ کو اس کے معروف معنی سے ہٹا کر استعمال کررہے ہیں ۔آپ نے خود اسلامی طرز حکومت کے لیے ’’تھیوڈیما کریسی‘‘ کی اصطلاح وضع کی تھی، اب اس اصطلاح کو چھوڑ کر آپ ڈیما کریسی کی طرف کیوں رجعت کررہے ہیں ۔

خلافت کے لیے قریشیّت کی شرط

اسلام تمام دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ سب انسان بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہیں ،گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ،اسلام کے حرم میں داخل ہوتے ہی سب اونچ نیچ برابر ہوجاتی ہے،اگر کوئی فرق رہتا ہے تو وہ بس اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ )الحجرات:۱۳) ’’اللہ کے ہاں تمھارے اندر سب سے زیادہ معزز سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ کے اصول پر رہتا ہے۔پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے جس کا مفہوم یہ یا اس کے قریب ہے کہ خلافت قریش میں رہنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے تو پھر ہٹلر ہی نے کیا بُرا کیا اگر اپنی قوم کو تمام دنیا کی قوموں پر فائق اور سرداری کاحق دار ٹھیرایا؟اور پھر اگر ایک قریشی کے لیے یہ حق ہے کہ قریش کو نہ صرف عجم پر بلکہ خود اہلِ عرب پر بھی فوقیت دے تو آخر مغربی اقوام ہی دوسری قوموں کو کم تر ٹھیرانے میں کیوں حق بجانب نہیں ؟اسلام کی اس دعوت کو حدیث کی اس روایت کے ساتھ کیوں کر منطبق کیا جاسکتا ہے؟

خلافت کے لیے قریشیّت کی شرط اور اختیار اَہْوَنُ الْبَلِیَّتَین

حدیث اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ ({ FR 2224 })کے متعلق آپ نے اپنے مضامین میں جو کچھ لکھا ہے اور اس پر بعض حلقوں کی طر ف سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں ، ان دونوں بحثوں کو دیکھ کر حسب ذیل امور تنقیح طلب محسوس ہوتے ہیں جن پر خالص علمی حیثیت سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ کا یہ ارشاد نہ امر ہے نہ خبر نہ وصیت بلکہ یہ ایک قضیے کا فیصلہ تھا جو خلافت کے بارے میں قریش اور انصار کے درمیان حضوؐر کی زندگی ہی میں ذہنوں کے اندر موجود تھا اور حضورﷺ کو اندیشہ تھا کہ آپ کے بعد یہ ایک نزاع کی صورت اختیار کر لے گا، اس لیے آپ نے اپنی زندگی میں یہ فیصلہ فرما دیا کہ آپ کے بعد قریش اور انصار میں سے قریش ہی خلافت کے حق دار ہیں ۔ بالفاظِ دیگر یہ محض ایک وقتی فیصلہ تھا جس سے مقصود حضوؐر کے فوراً بعد رونما ہونے والی نزاع کو رفع کرنا تھا اور بس۔ کیا حدیث مذکور کی یہ تعبیر درست ہے؟

خلافت کے لیے قریشیت کی شرط کی حقیقت

یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ کے اس فیصلے سے مساوات کا اصول نہیں ٹوٹتا کیونکہ اسلام میں مساوات کا اصول مطلق نہیں ہے بلکہ اہلیت و قابلیت کی شرط سے مقیّد ہے اور یہ شرط اصولِ مساوات کی ضد نہیں ہے۔ مساوات کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر شخص بلالحاظِ اہلیت و صلاحیت ہر منصب کا مستحق ہو۔ اب چونکہ خلافت کے لیے اہلیت کی دوسری صفات کے ساتھ ساتھ سیاسی زورواثر بھی ایک ضروری صفت ہے۔ اور اس وقت یہ سیاسی زورواثر قریش ہی کو حاصل تھا، اس لیے انصار کے مقابلے میں ان کے استحقاقِ خلافت کو جو ترجیح دی گئی وہ اہلیت ہی کی بنا پر دی گئی۔ اس استدلال کی بنا پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس فیصلے سے اصول مساوات نہیں ٹوٹتا۔ کیا یہ استدلال صحیح ہے؟

یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کبھی اس حدیث کو امر قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے خبر ثابت کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک صاحب نے چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر (جلد اوّل صفحہ ۱۸۰) سے آپ کی ایک عبارت نقل کی ہے جس میں آپ نے اس حدیث کو محض ایک پیشین گوئی قرار دیا تھا اور اس کے حکم ہونے سے انکار کیا تھا۔ حالانکہ اب آپ اسے ایک حکم قرار دیتے ہیں ۔ کیا اس سے یہ شبہہ کرنے کی گنجائش نہیں نکلتی کہ یا تو آپ اس مسئلے کو سمجھے نہیں ہیں یا پھر آپ کبھی اپنے مطلب کے مطابق اس کا ایک مفہوم بناتے ہیں اور کبھی دوسرا؟

حدیث امامت قریش سے مستنبط ہونے والے اصول

وہ اُصول کیا ہے جو نبی ﷺ کے اس فرمان : اَلْاَئِمّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ سے آپ مستنبط کرتے ہیں اور اس کا انطباق آپ کے نزدیک کن امور پر کس طرح ہو گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اگر آپ امورِ ذیل کی وضاحت بھی کر دیں تو مناسب ہو گا:
(الف) حکمت ِ عملی اور قاعدہ أھون البلیتین سے آپ کی کیا مراد ہے؟
(ب) کیا یہ قاعدہ دو ناگزیر برائیوں کی طرح دو ناگزیر بھلائیوں اور دو واجب الاطاعت احکام کے درمیان بھی استعمال ہو سکتا ہے؟

نظامِ کفر کی قانون ساز مجالس میں مسلمانو ں کی شرکت

آپ کی کتاب’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ پڑھنے کے بعد یہ حقیقت تو دل نشین ہوگئی ہے کہ قانون سازی کا حق صرف خدا ہی کے لیے مختص ہے، اور اس حقیقت کے مخالف اُصولوں پر بنی ہوئی قانون ساز اسمبلیوں کا ممبر بننا عین شریعت کے خلاف ہے۔مگر ایک شبہہ باقی رہ جاتا ہے کہ اگر تمام مسلمان اسمبلیوں کی شرکت کو حرام تسلیم کرلیں توپھر سیاسی حیثیت سے مسلمان تباہ ہوجائیں گے۔ظاہر ہے کہ سیاسی قوت ہی سے قوموں کی فلاح وبہبود کا کام کیا جاسکتا ہے اور ہم نے اگر سیاسی قوت کو بالکلیہ غیروں کے حوالے ہوجانے دیا تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اغیار مسلم دشمنی کی وجہ سے ایسے قوانین نافذ کریں گے اور ایسا نظام مرتب کریں گے جس کے نیچے مسلمان دب کر رہ جائیں ۔پھر آپ اس سیاسی تباہی سے بچنے کی کیا صورت مسلمانوں کے لیے تجویز کرتے ہیں ؟