حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ…کی علمی تحقیق

میرے ایک دوست نے جو دینی شغف رکھتے ہیں ،حال ہی میں شیعیت اختیا ر کرلی ہے۔ انھوں نے اہل سنت کے مسلک پر چند اعتراضات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔ اُمید ہے کہ آپ ان کے تشفی بخش جوابات دے کر ممنون فرمائیں گے:
(۱)نبی اکرم ﷺ کی حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا، فَمَنْ اَ رَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَاْتِ الْبَابَ کامفہوم کیا ہے؟
(۲) کیا اس حدیث سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ علم —دینی علم — کے حصول کا واحد اور سب سے معتبر ذریعہ صرف حضرت علی ؓ کی ذات گرامی ہے اور اس کے سوا جن دوسرے ذرائع سے علم دین حاصل کیا گیاہے، وہ ناقص ہیں اور اس وجہ سے ان کی دین کے اندر کوئی اہمیت نہیں ؟

توبہ کی فضیلت یا گناہ کی ترغیب؟

ایک مضمون میں ذیل کی حدیث نقل ہوئی ہے:
’’] … [ اگر تم لوگوں نے گناہ نہ کیا تو تم لوگوں کو اﷲ تعالیٰ اٹھا لے گا اور ایک دوسری قوم لے آئے گا جو گنا ہ کرے گی اور مغفرت چاہے گی، پس اﷲ اس کو بخش دے گا۔‘‘({ FR 2032 })
ناچیز کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حدیث شاید موضوع ہوگی جو بداعمالیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے بنا لی گئی ہوگی۔بظاہر اس میں جتنی اہمیت استغفار کی ہے ،اس سے کہیں زیادہ گنا ہ کی تحریص معلوم ہوتی ہے۔کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی کوئی معقول توجیہ ممکن ہے؟

رسول اللہ ﷺکی ازواجِ مطہرات سے قربت

میں نے تجرید البخاری مؤلفہ علاّمہ حسین بن مبارک متوفی ۹۰۰۱ھ کے اُردو ترجمے میں جو فیروز الدین صاحب نے لاہور سے شائع کیا ہے، صفحہ۸۱ پر ایک حدیث کا مطالعہ کیا جو حسب ذیل ہے:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنی ازواج مطہراتؓ کے پاس ایک ہی ساعت کے اندر رات دن میں دورہ کرلیتے تھے۔ اور وہ گیارہ تھیں (ایک روایت میں آیا ہے کہ نو تھیں ) حضرت انسؓ سے پوچھا گیا کہ آپؐ ان سب کی طاقت رکھتے تھے؟ وہ بولے ہم تو کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کی قوت دی گئی ہے۔
جناب والا سے میں توقع رکھتا ہوں کہ براہ کرم مذکورہ بالا حدیث کی صحت پر روشنی ڈالیں ۔ کیا یہ امرِ واقعہ ہے کہ حضورﷺ نے ایک ہی ساعت کے اندر اپنی جملہ ازواج مطہراتؓ سے مقاربت کی ہے؟ اور اگرمقاربت کی ہے تو حضرت انسؓ کو کس طرح اس کا علم ہوگیا؟ کیا حضورؐ نے حضرت انسؓ سے اس مقاربت کا ذکر فرمایا؟ یا ازواج مطہراتؓ میں سے کسی نے اس ازدواجی تعلق کا راز فاش کیا؟ یا حضرت انسؓ کو آں حضرت کی خلوت کا ہر وقت علم ہوتا رہتا تھا؟ یا حضرت انسؓ خود اس خلوت کا علم حاصل کرنے کی کھوج میں لگے رہتے تھے؟ آخر حضورﷺ کو اس قدرعُجلتِ مقاربت کی کیا ضرورت درپیش تھی جب آپ کی باریاں مقرر تھیں ؟ اور کیا بہ وقت واحد اس قدر کثرتِ مقاربت سے حضورﷺ کی صحت و توانائی پر کچھ اثر نہ پڑتا تھا؟

۷۲فرقوں والی حدیث اور اتحادِ اُمت

آپ فرقہ پرستی کے مخالف ہیں مگر اس کی ابتدا تو ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ […] عن قریب میری اُمت۷۲فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا،جو میر ی اور میرے اصحاب کی پیروی کرے گا‘‘({ FR 2034 }) (بلکہ شیعہ حضرات تو’’اصحاب‘‘ کی جگہ’’اہل بیت‘‘کولیتے ہیں )اب غور فرمایے کہ جتنے فرقے موجود ہیں ،سب اپنے آپ کو ناجی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ۔ پھر ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟جب ایسا ممکن نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ حدیث حاکمیت غیر اﷲ کی بقا کی گارنٹی ہے۔بہت سے لوگ اسی وجہ سے فرقہ بندی کو مٹانے کے خلاف ہیں کہ اس سے حدیث نبویؐ کا ابطال ہوتا ہے۔

رسول اللّٰہ ﷺ کے تشریعی اختیارات

جناب کی تصنیف ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میری نظر سے گزری۔ اس کے مطالعے سے میرے تقریباً سب شکوک رفع ہوگئے سواے چند کے جنھیں دور کرنے کے لیے آپ سے رجوع کر رہاہوں ۔ اُمید ہے کہ آپ میری راہ نمائی فرمائیں گے۔
صفحہ ۷۱ پر آپ نے لکھا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صراحتاً نبی ﷺ کو تشریعی اختیارات دیے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے امر و نہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے بلکہ جو کچھ نبی ﷺ نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جس چیز کا حضورﷺ نے حکم دیا ہے، یا جس چیز سے منع فرمایا ہے، وہ بھی اللّٰہ کے دیے ہوئے اختیارات سے ہے اور اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔ مگر آپ نے تشریعی کام کی جو مثالیں دی ہیں (ص۷۱ تا۸۰) وہ دراصل تشریحی کام کی ہیں تشریعی کی نہیں ۔ مؤخر الذکر کی جو مثالیں مجھے سوجھتی ہیں وہ ذیل میں مذکور ہیں اور ان کے بارے میں جناب سے ہدایت کا طالب ہوں ۔
(الف) صفحہ۷۹ پر کھانے کی بعض چیزوں کی حرمت کے بارے میں آپ نے سورئہ المائدہ پر اکتفا کیا ہے، لیکن سورئہ انعام کی آیت نمبر ۱۴۵ کی رو سے صرف مردار، بہتا خون، لحم خنزیر اور غیر اللّٰہ کے نام پر ذبیحہ حرام ہے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وحی کے ذریعے مذکورہ اشیا کے علاوہ کھانے کی کوئی اورچیز حرام نہیں کی گئی۔ پھر حضورﷺ کو دیگر اشیا کو حرام قرار دینے کی ہدایت کیسے ملی؟
(ب) شریعت بعض صورتوں میں زنا کی سزا رجم قرار دیتی ہے۔ لیکن قرآن مجید میں اس جرم کے بارے میں اس سزا کاذکر نہیں ملتا۔ پھر یہ سزا کیسے تجویز ہوئی؟
ان دونوں مثالوں میں احکام قرآن اور احکام شریعت میں بظاہر کچھ تضاد نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوگا۔ امید ہے حقیقت کی وضاحت فرما کر آپ مجھے ممنون فرمائیں گے۔

چار حرام چیزوں کی حُرمت کا مطلب

میرے پہلے خط کے جواب میں جناب فرماتے ہیں کہ سورئہ الانعام کی آیت کا مطلب دراصل یہ ہے کہ جاہلیت میں اہل عرب نے جن چیزوں کو حرام کر رکھا تھا ’’حرام وہ نہیں ہیں ‘‘ بلکہ حرام یہ چیزیں ہیں جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں ۔ لیکن قرآن مجید صرف اتنا ہی نہیں فرماتا بلکہ اس کی بھی تصریح کرتا ہے کہ جہاں تک نبی ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کا تعلق ہے ان چیزوں کے سوا اور کوئی چیز اس میں حرام نہیں کی گئی۔ قرآن کریم کے الفاظ بالکل صاف ہیں اور ان میں کوئی گنجلک نہیں ۔ پھر آپ کیوں فرماتے ہیں کہ ’’اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان چاروں چیزوں کے سوا کسی کھانے والے کے لیے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے؟‘‘ مہربانی فرما کر اس کی وضاحت فرما دیں ۔
تفہیم القرآن پہلے بھی پڑھ چکا تھا اور اب آپ کے فرمانے پر سورئہ النساء اور سورئہ النور میں جناب کے نوٹوں کا دوبارہ مطالعہ کیا۔ لیکن اگر آپ سوئے ادب نہ سمجھیں تو عرض کروں کہ دلیل دل کو نہیں لگی۔ عام طور پر موازنہ مماثل اشیا میں ہوتا ہے یعنی ایک شادی شدہ لونڈی کو اگر محصنہ کی سزا کا کوئی حصہ ملتا ہے تو محصنہ بھی شادی شدہ ہونی چاہیے ورنہ قرآن مجید کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ یہاں شادی شدہ لونڈی کا شادی شدہ محصنہ سے مقابلہ نہیں کیا جا رہا بلکہ غیر شادی شدہ سے کیا جا رہا ہے۔ کیا آپ فرما سکتے ہیں کہ قرآن مجید یا رسول اللّٰہ ﷺ نے اس کی صراحت فرمائی ہے؟ سورئہ النور میں آپ کے نوٹ میں صفحہ ۳۳۹ پر لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے ایک عورت کو کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اسے رجم کیا اور فرمایا کہ ہم نے کتاب اللّٰہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللّٰہ کے مطابق سنگ سار کرتے ہیں ۔ یعنی حضرت علیؓ کے نزدیک سورئہ النور والی سزا غیر شادی شدہ محصنات تک محدود نہ تھی۔ شاید اسی وجہ سے امام احمد، دائود ظاہری اور اسحاق بن راہویہ نے بھی پہلے سو درے لگانے اور بعد میں سنگ سار کرنے کی سزا تجویز کی ہے۔ (ایضاً صفحہ ۳۳۷) اگر یہ استنباط درست ہے تو اس بات کے حق میں کافی شہادت موجود ہے کہ زنا کی سو دُرّے کی سزا کا اطلاق شادی شدہ محصنات پر بھی ہوتا ہے۔ پھر ان کو رجم کی سزا کیوں دی جاتی ہے؟

بعض اقوالِ رسول ﷺکا مبنی بروحی نہ ہونا

آپ نے تفہیمات حصہ اوّل،صفحہ ۲۴۸پر سورۂ النجم کی ابتدائی آیات مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى({ FR 2151 }) ( النجم:۲-۴ )کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
’’ان آیات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی بِنا پر نطق رسول کو صرف قرآن کے ساتھ مخصوص کیا جاسکتا ہو۔ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا ۱طلاق کیا جاسکتا ہے، آیات مذکورہ کی بِنا پر وحی ہوگی۔‘‘
پھر رسائل ومسائل ] سوال نمبر ۳۴۰ [ میں دجّال کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے:
’’دجّال کے متعلق جتنی احادیث نبی ﷺ سے مروی ہیں ، ان کے مضمون پر مجموعی نظر ڈالنے سے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺکو اﷲ کی طرف سے اس معاملے میں جو علم ملا تھا،وہ صرف اس حد تک تھا کہ ایک بڑا دجّال ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی یہ اوریہ صفات ہوں گی اور وہ ان ان خصوصیات کا حامل ہوگا۔لیکن یہ آپ کو نہیں بتایا گیا کہ وہ کب ظاہر ہوگا،کہاں ظاہر ہوگا،اور یہ کہ آیا وہ آپؐ کے عہد میں پیدا ہوچکا ہے یا آپؐ کے بعد کسی بعید زمانے میں پیدا ہونے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ظہور دجّال اور صفات وخصوصیات دجّال کے متعلق حضور ﷺ کے جو ارشادات ہیں ، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں ۔بخلاف اس کے ظہور دجّال کے زمانہ ومقام کے بارے میں روایات باہم متعارض ہیں جن میں تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے، کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی نہیں ہیں ۔‘‘
اسی سلسلے میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں :
’’یہ تردّد اوّل تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپ نے علم وحی کی بِنا پر نہیں فرمائی تھیں بلکہ اپنے گمان کی بِنا پر فرمائی تھیں ۔‘‘
آپ کی مندرجہ بالا تحریروں سے صاف واضح ہے کہ یہ باہم متناقض ہیں ۔ پہلی تحریر میں تو آپ نے فرمایا ہے کہ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے علم وحی پر مبنی ہو گی۔ لیکن دوسری تحریروں میں آپ بتاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے بعض ارشادات ایسے بھی ہیں جو علم وحی پر مبنی نہیں ہیں ۔ مثلاً ظہور دجّال کے زمانہ ومقام کے بارے میں آپ کے ارشادات۔ حالاں کہ ان ارشادات پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔
نیز مندرجہ ذیل سوال بھی جواب طلب ہے:
رسول اﷲ ﷺ کے جن ارشادات کی تائید قرآن میں موجود نہیں ، ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں یا نہیں ۔اگر آپ کا یہ جواب ہو، جیسا کہ آپ کی مندرجہ بالا تحریر سے ظاہر ہے کہ جو ارشادات نبویؐ باہم متعارض نہیں ہیں ،وہ مبنی بر علم وحی ہیں اور جو باہم متعارض ہیں وہ مبنی برعلم وحی نہیں ہیں ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کتب احادیث میں ایسی کئی متعارض احادیث ہیں جن کے بارے میں ائمۂ امت کا عقیدہ ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں اور جن سے انھوں نے مسائل کا استنباط بھی کیا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا فیصلہ ہے؟

احادیث میں اختلاف کے اسباب

اگر جناب منکرین حجیت حدیث کے درج ذیل شبہےکا ازالہ فرمائیں تو ذی علم احباب کے لیے عموماً اور ناظرین رسالہ کے لیے خصوصاً بہت مفید ہوگا۔
احادیث فعلی اور قولی میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا۔ مثلاً احادیث فعلی میں سے کیفیت وہیئت نماز کے متعلق عقل چاہتی ہے کہ مطلقاً کسی قسم کا اختلاف نہ ہو۔خصوصاً جبکہ ارشاد نبوی تھا کہصَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِی اُصَلّیِ۔({ FR 2020 }) کم از کم حرمین شریفین میں دن رات پانچ مرتبہ ایک گروہ کثیر ہر زمانے میں متواتر اس عمل کا مشاہدہ کرتا رہا ہے مگر ابتداے زمانہ ہی میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف جو بصورت رفع یدین، ارسال یدین،({ FR 1840 }) وضع یدین({ FR 2124 })،اور آمین بالجہر وغیرہا ظاہر ہوا، اس تواتر فعلی کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے اور تواتر قولی کی حیثیت اور بھی گر جاتی ہے۔ خبر احاد کا کیا کہنا۔

احادیث اور اُسوئہ حسنہ

از راہِ کرم منکرین حجیت حدیث کے درج ذیل شبہے کا جواب دے کر راہ نمائی فرمائیں : اس میں کلام نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لیے عملی طور پر سبق آموز ہے۔ قرون اولیٰ میں جب تک کہ احادیث کا تسلی بخش اہتمام نہ ہوسکا، قریتین عظیم کے باہر مسلمان قرآن مجید ہی سے اسوۂ نبی کا اقتباس کرتے تھے۔ اخلاق رسول اکرم ﷺ کے متعلق حضرت عائشہ ؅ سے پوچھا گیا اور آپ نے جواباً فرمایا: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ۔({ FR 2021 }) غرض قرآن پاک سے اسلامی اخلاق اور زندگی کے معلوم کرنے کے لیے ذخیرۂ وافر میسر ہے۔ فی زمانہ بھی بہت تھوڑے ہیں جن کو پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃو التحیات کی سوانح بالتفصیل و الصواب معلوم ہوں ۔ مگر متبعین شریعت عموماً اصول و ارکان سے واقف ہیں اور یہی مقصود بالذات تھا۔

رسول اللّٰہ ﷺ کے گمان اور وحی میں فرق

آپ کایہ قول کہ’’آپ( رسول اکرم ﷺ) کا گمان وہ چیز نہیں جس کے صحیح نہ ثابت ہونے سے آپؐ کی نبوت پر حرف آتا ہو‘‘ میرے نزدیک قابل قبول نہیں ۔ کیوں کہ غلط گمانوں میں اُلجھنا ایک فلسفی کا کام تو ہوسکتا ہے لیکن نبی کا منصب اس سے بدرجہا اعلیٰ،بلند اور پاک ہے۔ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ رسول کریمﷺ کا فلاں گمان غلط تھا تو گویا ہم نے مان لیا کہ آپﷺ فلاں موقع پر ہدایت خداوندی حاصل نہ کرکے گمراہ ہوگئے۔ اور لہٰذا آپ ﷺ آیت مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى({ FR 2152 }) ( النجم:۲ ) کے صحیح مصداق نہ تھے۔ازراہِ کرم اپنے درج بالا قول کی وضاحت کیجیے۔