مصنوعی استقرار حمل

ایک صاحب کی شادی تقریباً دس ماہ قبل ہوئی تھی۔ اس عرصے میں حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے تو زوجین نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے مختلف طرح کے ٹیسٹ کرانے کے بعد بتایا کہ بچہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ عورت کی بچے دانی کا ٹیوب بند ہے۔ ہاں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ اپنا کر استقرار حمل کروایا جاسکتا ہے۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں ، کیا ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے استقرار حمل کروانا اور اس طریقے سے اولاد حاصل کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟

کیا غور و تدبر کا تعلق دل سے ہے؟

سورۂ محمد کی آیت نمبر ۲۴ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْٰانَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور و تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘
عام طور پر غور و فکر اور تدبر کا تعلق دماغ سے سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس آیت مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ اگر دلوں پر قفل پڑے ہوں تو انسان قرآن مجید پر غور و فکر اور تدبر نہیں کرپاتا۔ از راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر کے ضمن میں انسانی دل کس طرح اپنا کردار نبھاتا ہے؟

بعثت ِانبیاء کا مقصد

سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج (الحدید: ۲۵)
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زندگی کی حد تک قیام عدل و انصاف ہی رسولوں کی بعثت کا مقصد ہے۔ عام طور پر پایا جانے والا یہ خیال ناقص ہے کہ بعثت ِرسل کی غرض ایک اللہ کی پرستش کرنے اور دوسروں کو غیر اللہ کی پرستش سے روکنے تک محدود ہے۔ دوسری طرف قرآن حکیم کی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایمان تقویٰ کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان خود مطلوب نہیں ، بلکہ بطور وسیلہ مطلوب ہے۔
بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا میری یہ سوچ درست ہے؟

ایک آیت کا مفہوم

سورۂ الدہر کی ایک آیت ہے:
نَحْنُ خَلَقْنٰـہُمْ وَ شَدَدْنَـآ اَسْرَہُمْج وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَـآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلاًo (آیت: ۲۸)
’’ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں ، اور ہم جب چاہیں ان کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں ۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے:
’’اصل الفاظ ہیں : اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَـآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلاً۔ اس فقرے کے کئی معنیٰ ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ ہم جب چاہیں انھیں ہلاک کرکے انہی کی جنس کے دوسرے لوگ ان کی جگہ لاسکتے ہیں ، جو اپنے کردار میں ان سے مختلف ہوں ۔ دوسرے یہ کہ ہم جب چاہیں ان کی شکلیں تبدیل کرسکتے ہیں ، یعنی جس طرح ہم کسی کو تندرست اور سلیم الاعضاء بنا سکتے ہیں اسی طرح ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ کسی کو مفلوج کردیں ، کسی کو لقوہ مار جائے اور کوئی کسی بیماری یا حادثے کا شکار ہوکر اپاہج ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ ہم جب چاہیں موت کے بعد ان کو دوبارہ کسی اور شکل میں پیدا کرسکتے ہیں ۔‘‘ (۱)
مولانا مودودیؒ نے اپنی تشریح میں آیت کے جو تیسرے معنیٰ بتائے ہیں ، کیا اس سے برادران ِ وطن کے ’پنر جنم‘ کے عقیدے کا اثبات نہیں ہوتا؟

رسول اکرم ﷺ کی تشریعی حیثیت

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کو بہ حیثیت رسول جو ذمہ داری دی گئی تھی، وہ کتاب اللہ کی تشریح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے نبی) یہ ذکر ہم نے تمھاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔ (النحل: ۴۴) اس آیت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ نبیؐ کو اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں جو احکام و ہدایات دیے جا رہے ہیں ، ان کی آپؐ وضاحت اور تشریح فرما دیں ، تاکہ لوگوں کو کلام اللہ کے سمجھنے میں دشواری نہ پیش آئے۔
یہ فریضہ منصب ِرسالت کا ایک اہم جزء ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ذمہ داریاں آپؐ کے سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐکی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ بلکہ یہاں تک فرمایا گیاہے کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے (النساء: ۶۴، ۸۰، محمد: ۳۳) اس کے ساتھ آپ کو کچھ اختیارات بھی عطا کیے تھے۔ فرمایا: ’’جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔‘‘ (الحشر:۷) یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ فرائض نبوت کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہی بصیرت اور حکمت عطا فرمائی تھی، جس کی بنیاد پر آپ مقاصد قرآن کی گہرائیوں تک پہنچتے تھے۔ یہ بصیرت اور حکمت لازمۂ نبوت تھی، جو کتاب کے ساتھ آپ کو عطا کی گئی تھی اور اسی کی بدولت آپؐ لوگوں کو تعلیم خداوندی کے مطابق عمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ قرآن میں اس کا بہ کثرت تذکرہ ملتا ہے۔ (ملاحظہ کیجئے البقرۃ: ۱۲۷، ۱۲۹، ۱۵۱، آل عمران: ۱۶۴، الجمعۃ: ۲) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ (القیامۃ: ۱۹) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیمات و احکام کی جو تشریح و تعبیر آپؐ اپنے قول و عمل سے کرتے تھے وہ آپؐ کے ذہن کی پیداوار نہ تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ِمبارک ہی آپ پر قرآن نازل کرتی تھی اور وہی آپؐ کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی اور اس کے وضاحت طلب امور کی تشریح بھی کرتی تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ آپؐ کے ذرائع معلومات کتاب اللہ کے علاوہ بھی ہیں ، جو قرآن سے ثابت ہیں ۔ سورۂ بقرہ میں ہے: ’’اوروہ قبلہ جس کی طرف تم پہلے رُخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتاہے۔‘‘ (آیت ۱۴۳) چونکہ قبلۂ اول کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں پایا جاتا، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں ۔ لہٰذا حضور کی زندگی کا وہ کارنامہ جو آپؐ نے بعثت کے بعد اپنی ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں انجام دیا وہ قرآن کے منشا کی توضیح و تشریح کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں منصب رسالت کے دیگر کاموں کی ادائی ہے۔ اس تفصیل سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا منصب شارح کا تھا، نہ کہ ’شارع‘ کا ۔ لیکن بعض علماء آپؐ کے لیے شارع کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تشریعی اختیارات (Legislative Powers) عطا کیے تھے۔ اس بات کا تذکرہ انھوں نے اپنی تصانیف، خاص کر ’سنت کی آئینی حیثیت‘ میں زور و شور سے کیا ہے اور ایک دو جگہ آپؐ کو ’شارع علیہ السلام‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ مولانا مرحوم کی علمی صلاحیتوں کا قائل ہونے کے باوجود ان کا یہ نظریہ ناچیز کی عقل و فہم سے پرے ہے۔ کیوں کہ شارع تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، جس کا قرآن میں صراحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ نبی ﷺ کی حیثیت تو صرف شارح کی تھی۔
مولانا مودودیؒ نے نبی ﷺ کو تشریعی اختیارات حاصل ہونے کی جتنی بھی دلیلیں دی ہیں وہ سب دراصل تشریح کے زمرے میں آتی ہیں ۔ مثال کے طور پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’اگر تم کو جنابت لاحق ہوگئی ہو تو پاک ہوئے بغیر نماز نہ پڑھو۔‘‘ (النساء: ۴۳) اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؐ نے بتایا کہ جنابت کیا ہے اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ یعنی غسل کیسے کیا جائے گا؟ یہ سب اضافی باتیں تشریح و تفسیر کے زمرے میں ہی آئیں گی۔اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو سگی بہنوں کو بہ یک وقت ایک مرد سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ (النساء ۲۳) اس کی تشریح و توضیح آپؐنے یوں کی کہ جس طرح دوسگی بہنیں ایک جگہ جمع نہیں کی جاسکتیں اسی طرح خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ (النساء: ۱۱) یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر صرف دو لڑکیاں ہوں تو ان کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی وضاحت آپؐ نے یوں فرمائی کہ دو لڑکیاں ہونے کی صورت میں بھی دونوں کو ترکہ میں سے دو تہائی دیا جائے گا۔
یہاں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ سورۂ النحل آیت ۴۴ میں جس طرح حضوؐر کو قرآنی آیات کی تشریح و توضیح کا حکم دیا گیا ہے اس طرح قرآن میں تشریعی اختیارات عطا کرنے کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے آپؐ کے تشریعی اختیارات کے حق میں مولانا مودودیؒ نے جو دلائل دیئے ہیں اور جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ناکافی معلوم ہوتی ہیں ۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ یہ دین کی کوئی فروعی بحث نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق بنیادی عقائد سے ہے۔ مولانا مودودیؒ کی رائے مان لینے سے اوّل تو عقیدۂ توحید پر زد پڑتی ہے، دوسرے حضوؐر کے اختیارات میں غلو کے باعث فرقہ واریت کو تقویت پہنچتی ہے، جس سے ملت اسلامیہ کے مزید کم زور ہونے کا اندیشہ ہے۔ امید کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے۔

اسماء حسنیٰ

ایک حدیث میں ہے کہ ’’اللہ کے ننانوے نام ہیں ۔ وہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتاہے۔‘‘ اس کی روشنی میں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں :
(۱) کیا رسول اللہ ﷺ نے ان ناموں کی تعیین کی ہے؟ اگر ہاں تو وہ کیا ہیں ؟
(۲) ترمذی، ابن ماجہ اور عسقلانی نے جو نام بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ان میں سے کس کی فہرست مستند ہے؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ایک شخص قرآن سے اللہ کے ننانوے سے زائد نام نکال سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زائد نام ہیں ۔ بہ راہِ کرم ان سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں ۔

ایک حدیث کا صحیح مفہوم

صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے:
’’اگر تم گناہ نہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ تمھیں ختم کردے گا اور تمھاری جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے، پھر اللہ سے استغفار کریں گے تو اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔‘‘
اس حدیث کو سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ گناہ کرنے پر ابھارا جا رہا ہے، گناہ سے بچے رہنا کوئی خوبی نہیں ہے، بل کہ گناہ کا ارتکاب کرنا پسندیدہ ہے۔ بہ راہ کرم اس حدیث کا صحیح مفہوم واضح فرمادیں ۔

ایک حدیث کی تحقیق

میں جس مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھتا ہوں اس میں خطبہ میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے: السُّلْطَانُ ظِلُّ اللّٰہِ فِی اَرْضِہ، مَنْ نَصَحہ ھَدَی وَ مَنْ غَشَّہ ضَلَّ۔ (حکم راں اللہ کی زمین میں اس کا سایہ ہے۔ جس نے اس سے خیرخواہی کی وہ راہ یاب ہوا اور جس نے اس کی بدخواہی کی وہ گم راہ ہوا)۔ جس مسجد میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے وہ ایک معروف مدرسے کی بڑی مسجد ہے۔
براہ کرم اس حدیث کے متعلق تفصیل سے تحریر فرمائیں ۔ جواب پاکر ممنوں ہوں گا۔

فاقہ کشی کے دوران پیٹ پر پتھر باندھنے کی روایت

جنگ احزاب کے وقت اسلامی حکومت قائم ہوئے پانچ سال کا عرصہ ہوگیا تھا۔ ایک بڑا معرکہ درپیش تھا۔ مقابلے کی تیاری کے آغاز ہی میں خندق کی کھدائی کے دوران تین تین دن سے متواتر فاقے کاٹے گئے۔ کچھ صحابہ کرامؓ نے اگر بیان کیا کہ ان کے پچکے ہوئے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے ہیں تو نبی ﷺ نے اپنا کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ یہاں دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ۔
برسر اقتدار ہونے کے باوجود، بہت بڑی جنگ کی تیاری کا آغاز اس طرح کے حالات میں ہوا، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی عقل میں نہیں آتی کہ فاقہ کشی کے دوران پیٹ پر پتھر باندھے گئے۔ اس سے تو تکلیف میں اور اضافہ ہی ہوگا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

فضیلت ِ رمضان پر مروی ایک حدیث کی تحقیق

رمضان کی فضیلت پر ایک حدیث عموماً بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اولہ رحمۃ و اوسطہ مغفرۃ و آخرہ عتق من النار‘‘ (اس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے نجات ہے)
ہمارے یہاں ایک اہل ِ حدیث عالم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے اس کو رمضان کی فضیلت میں نہیں بیان کرنا چاہیے۔ اس حدیث کو ہم عرصہ سے سنتے اور کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں ، اس لیے ان کی بات عجیب سی لگی۔ بہ راہ کرم تحقیق کرکے بتائیں ، کیا ان کی بات صحیح ہے؟